26 واں یوم تکبیر، مودی کی دھمکیاں اور مجید نظامی کی یادیں

اہل پاکستان آج 28 مئی کو ملک و ملت کے تحفظ و دفاع کی ضامن ایٹمی صلاحیت کے حصول کے یادگار دن کو 26 ویں یوم تکبیر کے طور پر منا رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے ہمارا وطنِ عزیز کب اقتصادی طور پر بھی مستحکم ہوگا اور کب ہم آئی ایم ایف جیسے اداروں کے چنگل سے آزاد ہو کر ایک ایسے ملک کے شہری بن کر زندگی گزاریں گے جو اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو۔
 26 سال قبل 28 مئی 1998ءکو آج ہی کے دن پاکستان نے بھارت کی طرف سے ہونے والے تین ایٹمی دھماکوں کے توڑ اور جواب کے طور پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا تھا اور بھارت جیسا ازلی دشمن بھی اس ایٹمی دھماکے پر انگشت بدنداں رہ گیا تھا۔ بھارت نے 1974ءمیں پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے کی اطلاع دی تھی اور پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ بھارت ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے لہٰذا اس سے لڑائی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔ بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد ہمارے لیے کوئی دوسرا راستہ یا آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم بھی اس کے جواب اور اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار ہوں۔ امریکہ سمیت اس دور کی دیگر ایٹمی طاقتیں بھی ہمیں اپنے دفاع کا یہ جائز حق دینے کو تیار نہیں تھیں جبکہ بھارت نے دوبارہ11 مئی اور پھر 13 مئی 1998ءکو تین دھماکے کرکے پاکستان کو بھی اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا۔ عالمی طاقتیں بھارت کو تو ایٹمی دھماکے کرنے سے نہ روک سکیں لیکن پاکستان پر ہر انداز اور ہر لحاظ سے دباو¿ ڈالنے لگیں۔ کہیں لالچ اور ترغیب کے ذریعے اور کہیں معاشی پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے ہمیں ایٹمی طاقت بننے سے باز رہنے پر مجبور کیا جانے لگا، لیکن پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے عزم صمیم اور ہمت و جرا¿ت کے آگے کسی کی نہ چل سکی اور پاکستان کی حکومت کو تمام تر دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود دھماکے کرنے کا اٹل فیصلہ کرنا پڑا۔ 
بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ ایسا بدطینت ہمسایہ ہے جو ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور کسی بھی وقت جارحیت کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی بھارتی مکروہ عزائم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنانے کا تہیہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘ چنانچہ انھوں نے اپنے اسی عزم کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ انھوں نے ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور ممتاز میٹالرجیکل انجینئر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے پاکستان بلوایا ا ور انھیں یہ ٹاسک سونپا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس مقصد کے لیے فری ہینڈ دیا گیا اور ان کی مرضی کی ٹیم کے چناو¿ کے مواقع میسر کیے۔ تمام ضروری فنڈز اور ادارہ جاتی معاونت فراہم کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ کے قریب لیبارٹری اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا اور پھر دن رات اس مقصد کے حصول کے لیے یکسو ہو گئے۔ انھوں نے بیرونی ممالک سے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ضروری مواد منگوایا اور پوری آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ ان کی ٹیم نے دن رات ایک کر کے بالآخر وہ منزل پا لی جس کے لیے وہ مسلسل محنت اور جانفشانی کے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ جنرل محمد ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کے سائنسدانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں اگرچہ ایٹم بم کی شکل میں ایٹمی ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کر لی تھی۔ تاہم پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا باضابطہ اعلان کرنے کا اعزاز میاں محمد نواز شریف کے حصے میں آیا جن کے دور میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کا ایٹمی بٹن دبانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن اس کا بھی اصل کریڈٹ امام ِ صحافت اور معمار ِ نوائے وقت مجید نظامی کے سر جاتا ہے جنھوں نے قومی ایڈیٹروں کے ساتھ ہونے والی نشست میں متذبذب نواز شریف کو ایٹمی دھماکہ کرنے کے لیے مجبور کیا۔ ان کے یہ الفاظ تاریخ میں ثبت ہوچکے ہیں کہ ’وزیراعظم صاحب، ایٹمی دھماکہ کردیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی، میں آپ کا دھماکہ کردوں گا۔’ چنانچہ اس کے بعد ہی نواز شریف میں ایٹمی دھما کہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ اسی بنیاد پر یوم تکبیر کے موقع پر جناب مجید نظامی کو بھی ان کی ملکی، قومی اور ملی خدمات پر خصوصی طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ایٹمی دھماکے کے لیے مجید نظامی کے دیے گئے الٹی میٹم کی بنیاد پر ہی دھماکے کی تیاریوں کا آغاز ہوا۔ تمام پروگرام کو انتہائی خفیہ رکھا گیا اور انتہائی خاموشی کے ساتھ ہدف کے حصول کے لیے یکسو ہو کر ایٹمی دھماکے کے لیے مختلف سائٹس کا دورہ کیا گیا اور آخرکار تمام تر غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑی مقام کو منتخب کر لیا گیا۔ ایٹمی ٹیم کے اہم ارکان دھماکے سے پہلے ہی اس مقام پر پہنچ چکے تھے اور تمام پہلوو¿ں سے جائزہ لینے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے دھماکے کی اجازت طلب کی اور پھر گرین سگنل ملتے ہی بٹن دبا دیا گیا اور اور پاکستان نے بھارتی تین ایٹمی دھماکوں کے جواب میں مسلسل پانچ دھماکے کر کے اپنے ایٹمی قوت ہونے کی سرخروئی حاصل کی۔ پھر خوشی اور انبساط کے جذبات میں نعرہ¿ تکبیر سے چاغی کے پہاڑ لرز اٹھے۔ پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، بچے، بوڑھے، نوجوان مرد و زن دیوانہ وار گھروں سے باہر نکل کر نعرہ¿ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے۔ 28 مئی کا سورج ہماری آزادی و خودمختاری کے تحفظ کا ضامن بن کر طلوع ہوا تھا۔ 
ایٹمی دھماکوں پر پوری دنیا بالعموم اور بھارت بالخصوص سکتے کے عالم میں چلا گیا، اسے یہ گمان ہی نہیں تھا کہ پاکستان بے سر و سامانی کے باوجود اس کے مقابلے کا ایٹمی ملک بن جائے گا۔ وہ جنوبی ایشیا میں خود کو ہی بڑی طاقت سمجھتا تھا اور اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ جنوبی ایشیا کا کوئی ملک بھی اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن پاکستان کی طرف سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں نے اس کی قیادت کے اوسان خطا کر دیئے، اس کا تکبر اور زعم ہوا ہو گیا اور اسے طاقت کے توازن کے خیال نے ہی عدم توازن سے دوچار کر دیا۔ یہ اس ایٹمی صلاحیت ہی کا اعجاز ہے کہ آج بھارت تمام تر جارحانہ عزائم رکھنے کے باوجود پاکستان کے ساتھ ٹکر لینے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔ 1998ءکے بعد سے آج تک ایسے کئی مواقع آئے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکنے کے واضح امکانات پیدا ہو گئے تھے لیکن پاکستان کی ایٹمی طاقت ہونے کے باعث دوبارہ باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آ سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان آج ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک نہ ہوتا تو بھارت اس کی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنے کے عزائم کب کا پایہ¿ تکمیل کو پہنچا چکا ہوتا کیونکہ آزاد و خودمختار پاکستان اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ ہر لمحے اسی تاک میں رہتا ہے کہ کس طرح اس ملک خداداد کو (خدانخواستہ) ہمیشہ کے لیے نابود کر دے، اس کے لیئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اپنے انتخابی جلسوں میں کی جانے والی حالیہ رعونت بھری پاکستان مخالف تقاریر بھارتی مکروہ عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اب چونکہ وہ پاکستان سے براہِ راست ٹکر لینے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا اس لیے وہ چوری چھپے وار کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔چنانچہ 5 اگست 2019ءکو اپنے انھی توسیع پسندانہ عزائم ہی کی تکمیل کے لیے اس نے اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے ملک میں ضم کیا۔ وہ اپنی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی مدد سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے۔ پاکستان مخالف علیحدگی پسند تنظیموں کو لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ ساتھ مالی امداد اور افراد کو ٹریننگ دینے سمیت ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔ وہ ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ وار سمیت ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتا اور پاکستان میں بدامنی، انتشار اور فرقہ واریت پھیلانے کیلئے پاکستان دشمن عناصر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے کا آج مودی خود اعتراف کر رہے ہیں۔ 
ان حالات میں پاکستان کے متعلقہ ادارے بالخصوص عسکری قیادت اگرچہ اس کے توڑ کے لیے ہمہ وقت مستعد اور فعال ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں، ان کے نیٹ ورک اور ان کی سرگرمیوں پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی قوم کو بھی اس حوالے سے چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی چالوں سے باخبر رہنے اور ان کے عزائم سے بھی کماحقہ آگاہی کی ضرورت ہے۔ قومی یک جہتی اور اتحاد اس ضمن میں سب سے مو¿ثر ہتھیار ہے جو آج کچھ سیاسی عناصر کی مفاد پرست تخریبی، انتشاری سیاست کے رگڑے کھاتا دشمن کو ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے نادر مواقع فراہم کر رہا ہے۔ ہمیں دشمن کی گھناو¿نی سازشوں کے مقابل بہر صورت متحد اور یکجہت رہنا ہے۔
یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ٹرائیکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے درپے ہے۔ مضبوط عسکری حصار میں ہونے کی بنا پر وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر براہ راست قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے اس کا ہدف پاکستان کو معاشی طورپر دیوالیہ بنانا ہے۔ کیونکہ معاشی طورپر کمزور ملک کے لیے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ امریکہ اور اس کے حامی ممالک مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان کو اقتصادی طورپر غلام بنانے کے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک ان کے لیے ٹول کا کام کرتے ہیں۔ آج پاکستان اگر معاشی بدحالی کا شکار ہے تو اس کے پیچھے بھی پاکستان دشمن طاقتوں ہی کا ہاتھ ہے۔ اس وقت بھی جبکہ پاکستان کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے کے لیے مالی معاونت کی ضرورت ہے اور وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے اس کی ہر کڑی اور ناروا شرط کے آگے سر تسلیم خم کیے بیٹھا ہے نتیجتاً عام آدمی کا مہنگائی کے ہاتھوں بھرکس نکل چکا ہے۔ ایک ایٹمی ملک کا اس طرح بے بس ہونا یقیناً ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بجلی، گیس اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاءکے نرخوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ بھی غریب عوام پر ایٹم بم پھینکنے سے کم نہیں۔ ابھی آنے والے بجٹ میں عوامی مشکلات مزید بڑھنے کے ٹھوس عندیے مل رہے ہیں جو عوام کے لیے مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہو سکتے ہیں۔ عوام الناس میں پائے جانے والے اضطراب اور مایوسی کی ایسی ہی کیفیت سے ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ حکومت کو لہٰذا اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ایک ایٹمی پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم بنانے کی موجودہ حالات کے تناظر میں زیادہ ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔ بلاشبہ سیاسی اور معاشی طورپر ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان نہ صرف خطے میں امن کے قیام کا ضامن ہوسکتا ہے بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی تقویت کا باعث بن سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کی بھاری قیمت عالمی اقتصادی پابندیوں کی شکل میں ادا کرنا پڑی اور آج تک خمیازہ بھگتتا چلا آرہا ہے لیکن ملک کی سلامتی اور بقاءکے لیے یہ قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔ پوری قوم شدید مالی بحران، معاشی بدحالی اور اقتصادی بندشوں کے باوجود اپنی ایٹمی صلاحیت پر کوئی مفاہمت کر سکتی ہے نہ اس سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ گو کہ ہم نے پوری دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں، ہم امن اور بقائے باہمی کے اصولوں کی پاسداری کرنے والا عالمی قوانین کی پابندی کرنے والا ذمہ دار ملک ہیں لیکن ہم اپنے دفاع کا بہرحال حق محفوظ رکھتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اس جائز اور قانونی حق سے ہمیں محروم نہیں رکھ سکتی۔ آج کا یوم تکبیر ہماری قومی سیاسی عسکری قیادتوں سے اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا میں کسی نفاق کو نہ در آنے دیا جائے۔ خدا ہمارا حامی و نگہبان ہو۔

ای پیپر دی نیشن