”ایٹمی قوت پاکستان، مفلوک الحال عوام، گھاس کھائیے“ 

معزز قارئین! ماشاءاللہ، آج 28 مئی کو ہم سب (اہل ِ پاکستان) اور بیرون ملک آباد ”فرزندان و دخترانِ پاکستان“ وطن عزیز کے ایٹمی تجربے کی 26 ویں سالگرہ منا ئیں گے۔ ہمیں ایٹمی تجربہ اِس لئے کرنا پڑا کہ اِس سے قبل ہمارا پڑوسی (ازلی دشمن) بھارت فروری 1974ءمیں پہلی بار اور 11 مئی 1998ءکو دوسری بار ایٹمی تجربہ کر کے ”ایٹمی قوت “ بن چکا تھا لیکن اس سے پہلے 1979ءمیں برطانیہ کے نشریاتی ادارے "B.B.C" نے ٹیلی وڑن پر ایک دستاویزی فلم میں (تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے) کہا تھا کہ ” پاکستان اِسلامی بم بنا رہا ہے “۔ 
اِس سے پہلے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے پاس ایٹم بم تھے لیکن، کسی "B.B.C" سمیت کسی بھی غیر ملکی نشریاتی ادارے نے انہیں ” عیسائی بم“ قرار نہیں دِیا تھا اور نہ ہی سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے بموں کو ” کمیونسٹ بم“ کہا تھا۔ غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل بھی ایٹم بم بنا چکا تھا لیکن، اسکے بم کو بھی ” یہودی بم “ نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی بھارتی بم کو ” ہندو بم “ کانام دِیا گیا۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دَور میں وزیر خارجہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے "The Guardian" کے دولتِ مشترکہ کے خصوصی نمائندے Mr. Peter Kolkay کی اِس رپورٹ کا خصوصی تذکرہ کیا اور دنیا بھر کے اخبارات میں ان کے بیان کو خاص اہمیت دِی گئی تھی جس میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ”اگر عوام کو گھاس بھی کھانا پڑی تو، بھی ہم ( اہل پاکستان) ایٹم بم ضرور بنائیں گے!“۔ 
معزز قارئین ! اِس پر میرے دوست ” شاعرِ سیاست “ نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مو¿قف کے حق میں ایک نظم لکھی تھی ، جس کا عنوان تھا۔ ”کھانا پڑے گا، ورنہ زہر ، گھاس کھائِیے! “۔ لیکن صرف پانچ شعر پیش کر رہا ہوں....
” سب ہوگیا ہے، زیر و زبر، گھاس کھائِیے!
اربابِ ذوق و علم و ہنر، گھاس کھائِیے!
....٭....
روٹی نہیں ، تو بھوک کا، کیسے علاج ہو ؟
کھائیں گے، کیسے لعل و گہر، گھاس کھائِیے !
....٭....
جنگل میں ، یوں تو اور، جڑی بوٹیاں، بھی ہیں!
اہلِ وطن کے ساتھ، مگر ، گھاس کھائِیے!
....٭....
جب تک ، نجات نہ مِلے، غمِ زوز گار سے!
بہتر یہی ہے، شام و سحر، گھاس کھائِیے!
اِک بار، گھاس کھانے سے، گر بھوک ، نہ مِٹے
اے یارِ غار، بارِ دِگر، گھاس کھائِیے
”جنابِ مجید نظامی اور ایٹم بم ! “
معزز قارئین ! 28 مئی 2013ءکو ” یوم تکبیر “ کے موقع پر ” ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان “ لاہور میں ” نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ اور ” تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ کے مشترکہ اجلاس کے صدر کی حیثیت سے ” مفسرِنظریہ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی کے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ” میاں نواز شریف کو ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں عالمی قوتّوں کی طرف سے ” ایٹمی دھماکا “ کرنے کی صورت میں دھمکیاں دِی جا رہی تھیں اور میڈیا پر یہ خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں کہ ” دھماکا نہ کرنے پر وزیراعظم نواز شریف کو ہزاروں ملین ڈالرز کی رشوت بھی پیش کی جا رہی تھی ، پھر وزیراعظم صاحب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ایٹمی دھماکا کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورے کر رہے تھے۔ جب وہ مجھے اسلام آباد میں قومی اخبارات کے ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں کے اجلاس میں گو ،مگو ،کی پوزیشن میں نظر آئے تو مَیں نے ان سے کہا تھا کہ ”وزیراعظم صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ ضرور کردیں ، ورنہ قوم آپ کا دھماکا کر دے گی۔ مَیں آپ کا دھماکا کر دوں گا ! “۔ 
جنابِ مجید نظامی نے پھر کہا کہ ” چند دِن بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے چاغی ( بلوچستان) کے پہاڑسے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ ” محترم مجید نظامی صاحب ! مَیں نے ایٹمی دھماکا کر کے پاکستان کو نا قابلِ تسخیر بنا دِیا ہے۔ مبارک ہو!“۔ پھر مَیں نے بھی وزیراعظم صاحب کو مبارک باد دِی۔ 
” معاشی دھماکا ! “
 28 مئی 2013ءکو ” یوم تکبیر “ پر وزیراعظم میاں نواز شریف لاہور میں ”ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان“ میں جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ ” تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ اور ” نظریہ پاکستان ٹرسٹ “ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم میاں نواز شریف مہمانِ خصوصی تھے ، جب انہوں نے اعلان کِیا کہ” اب مَیں مفلوک الحال عوام کے دکھ دور کرنے کے لئے ” معاشی دھماکا “ کروں گا اور ہر گھر میں روشنیوں کے چراغ جلیں گے ! “۔معزز قارئین ! مَیں نے 30مئی 2013ءکو ” نوائے وقت “ میں ” شاعرِ سیاست“ کے صرف یہ دو شعر شائع کرائے تھے ....
” روٹی، کپڑا بھی ہو، بسیرا بھی!
 ٹوٹے ، دہشت گروں کا ، گھیرا بھی!
 دونوں ہی ہیں، ہماری ترجِیحات!
 دور غربت بھی ہو، اندھیرا بھی! “
”روٹی ، کپڑا اور مکان ! “ 
معزز قارئین ! صدر سکندر مرزا کی مارشل لائی کابینہ ، پھر صدر جنرل محمد ایوب خان کی مارشل لائی کابینہ میں خدمات انجام دینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ءکو اپنی چیئرمین شپ میں ” پاکستان پیپلز پارٹی “ بنائی تو بھوکے ،ننگے اور بے گھر عوام کے لئے ان کا نعرہ تھا۔ ” روٹی، کپڑا اور مکان!“ لیکن ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دو بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد انکی صاحبزادی بے نظیر بھٹو اور ان کے مجازی خدا ، آصف علی زرداری نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے مفلوک الحال عوام کے لئے کچھ نہیں کِیا۔ ان کے ادوار میں بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس کی طرف منہ کر کے یہ آوازے کستے تھے کہ ....
روٹی، کپڑا بھی دے ، مکان بھی دے !
اور ہمیں ، جان کی امان بھی دے !
” آنجہانی سوویت یونین !“
معزز قارئین ! فی الحقیقت ” پاکستان میں آمریت اور جمہوریت میں کسی بھی حکمران نے غریب غرباءکےلئے معاشی دھماکا نہیں کِیا؟ ایٹمی قوت ”سپرپاور“ سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے عہدِ زوال میں چشم فلک نے دیکھا کہ ” سوویت یونین کی مختلف "States" (ریاستوں) کی بیکریوں کے باہر ہاتھوں میں "Roubles" لئے خریداروں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں لیکن بیکریوں میں اشیائے خورو نوش نہیں تھیں۔ لیکن ہمارے پیارے پاکستان میں تو غربت کی لکیر سے نیچے 60 فی صد عوام کے پاس، قوّتِ خرید ہی نہیں ہے ؟۔

ای پیپر دی نیشن