یومِ تکبیر، قوم اور امامِ صحافت

عظیم جرنیل اور فلسفی سن زو نے قریباً ”اڑھائی ہزار برس پہلے جنگی حکمت عملی پر ایک کتاب ”دی آرٹ آف وار“ تخلیق کی جسے مشرق و مغرب میں آج بھی جنگی حکمت عملی کی موثر ترین گائیڈ مانا جاتا ہے۔ اس نے لکھا ”جنگی حکمت عملی اور جنگ کرنے کی صلاحیت کسی بھی قوم کے لئے بہت اہم اور زندگی موت کا مسئلہ ہوتی ہے۔ کسی بھی طرح کے حالات میں جنگی صلاحیت کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔“
11 مئی 1998ءکی شام پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے ایک عجیب داسی اور بے قراری کی شام تھی۔ اس شام بھارت نے پاکستان کو دفاعی صلاحیت کے حوالے سے فیصلہ کن مرحلے پر لاکھڑا کیا تھا تو دوسری طرف معیشت کی فکر تھی۔ وہ یوں کہ بھارت نے اچانک ایٹمی دھماکہ کر ڈالا تھا جو یقیناً پاکستان کےلئے ایک چیلنج تھا۔ اس نے وطن عزیز میں ایک اور ہی طرح کی بحث کی بنیاد ڈال دی تھی اور وہ یہ تھی کہ ایٹمی دھماکہ کرکے بھارت کو دندان شکن جواب دیا جائے اور بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کیا جائے یا دوسری صورت میں جوابی ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ نہ کر کے پابندیوں سے بچا جائے۔کیا ہونا چاہئے، کیا نہیں ہونا چاہئے والی صورتحال بالکل شیکسپیئر کے کردار ”ہیملٹ“ کے الفاظ (TO BE OR NOT TO BE) جیسی بے قراری لئے ہوئے تھی۔ میں ایک صحافی کے طور پر بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد قوم کے مورال کی صورتحال کو انتہائی کم سطح پر دیکھ رہا تھا۔ ابھی 11 مئی کے دھماکےکو لے کر گلی کوچوں، چائے خانوں، میڈیا ہاوسز اور حکومتی ایوانوں تک بحث اور سوچ بچار جاری تھی کہ صرف 48 گھنٹے بعد ہی یعنی 13 مئی کو بھارت نے مزید 2 ایٹمی دھماکے کر کے سکور تین پر پہنچا دیا۔ سن زو نے بالکل درست کہا تھا کہ قوموں کی زندگی میں جینے مرنے کے کئی مراحل آتے ہیں۔ ان مرحلوں کے دوران جس طرح کوئی درست فیصلہ قوموں کی کشتی پار لگا سکتا ہے اسی طرح ایک غلط قدم انہیں گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل سکتا ہے۔ ان حالات میں قوم کے دانشوروں، صحافیوں اور سمجھدار افراد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور درست فیصلے میں قوم کی رہنمائی کریں۔
ان دنوں میں نوائے وقت میں ڈپٹی نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ بحیثیت صحافی اور پاکستانی میں نے مشاہدہ کیا کہ امامِ صحافت محترم مجید نظامی نے قوم کو صحیح سمت لے جانے کے لئے کمر بالکل اسی طرح کس لی ہے جس طرح وہ ہر نازک موقع پر قوم کی رہنمائی کے لئے آگے بڑھ کر کردار ادا کرتے رہتے تھے۔ اس موقع پر روزنامہ نوائے وقت کے حوصلہ افزا اداریوں، خبروں، مضامین اور کالموں نے قوم کے مورال کو خوب بلند کیا اور حوصلے کو گرمایا۔
امامِ صحافت یہ جان چکے تھے کہ اس وقت پابندیوں کی پروا کرنے کی نہیں بلکہ قوم کو بحیثیت قوم زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی یہ سوچ کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن اور محبِ وطن پاکستانیوں آواز بن گئی اپنے زور دار، پ±راثر خطبات اور جادوئی اثر بیانیہ کے ذریعے وہ خم ٹھونک کر ایٹمی دھماکوں کی حمایت میں تر آئے۔ انہوں نے قوم کو ایک ولولہ دیا اور مجھ جیسے ہزاروں اخباری کارکنوں کو بھی اس حوالے سے تصور بخشا کہ وہ ان کے بتائے راستوں پر چل کر قوم کو صحیح غلط کا فرق بتائیں۔ میاں محمد نوازشریف اس وقت ملک کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے مشاورت کا راستہ اپنا رکھا تھا چنانچہ ایڈیٹرز کو بھی بلایا گیا۔ اس موقع پر رائے مانگی گئی تو معمارِ نوائے وقت نے اپنی روایتی بے باکی کے ساتھ کہا: ”میاں صاحب: قوم کی منگوں کے مطابق ایٹمی دھماکے کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔“ ان چند الفاظ میں وہ سب کچھ تھا جو ایک حکمران کو سمجھانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ 
محترم مجید نظامی نے 11 مئی 1998ءسے لے کر 28 مئی 1998ء(یوم تکبیر) تک ایک ایک نکتہ پر اپنی ٹیم (ڈپٹی نیوز ایڈیٹر کے طور پر جس کا میں بھی حصہ تھا) کو انتہائی موثر اور بے باک انداز میں گائیڈ کیا۔ وہ ایک انتہائی انتھک شخصیت تھے اور پھر معاملہ قومی مفادات کا ہوتا تو ان کی ڑان دیکھنے لائق ہوتی۔ محترم مجید نظامی کی اخباری پالیسی اور اس دوران کا طرز عمل دیکھ کر میرے سمیت پوری قوم کو یقین ہو چلا تھا کہ اب جوابی ایٹمی دھماکے ہو کر ہی رہیں گے۔ وقت اس قدر سازگار ہو چکا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم نے بھی امریکی امداد مسترد کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر وہی ہوا جس میں قوم کی عافیت تھی، جو محترم مجید نظامی کی آواز تھی۔ یعنی پاکستان نے 28 مئی کو ایک قدم بڑھ کر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دے ڈالا اور وہ جواب یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے اس سارے عمل کے دوران امامِ صحافت نیوز روم نوائے وقت کو مسلسل رہنمائی فراہم کرتے رہے۔ ایٹمی دھماکوں میں محترم مجیدنظامی کا کیا کردار تھا اس کی گواہی اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے خود دیدی۔ جب انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نشانِ پاکستان کا اعزاز دینے کا اعلان کیا تو یہی اعزاز انہوں نے محترم مجید نظامی کو بھی دینے کا اعلان کیا۔
امامِ صحافت نے استفسار کیا کہ مجھے یہ اعزاز دینے کی وجہ کیا ہے؟ تو نوازشریف نے جواب دیا تھا کہ ڈاکٹر قدیر نے ایٹم بم بنانے میں جس طرح مدد کی آپ نے اسی طرح ایٹمی دھماکے کرانے کے فیصلے میں مدد دی۔اس اعتراف کے بعد یہ جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ محترم مجید نظامی کا ایٹمی دھماکوں میں کیا کردار تھا۔
ہم نے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو مناسب سے بھی زیادہ جواب تو دیدیا اور ساری باتوں سے بڑھ کر ”اپنے گھوڑے تیار رکھنے“ کے فرمانِ الٰہی پر بھی عمل کر دیا۔ سب درست ، سب بجا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس یومِ تکبیر پر وطن عزیز کے تمام بدخواہوں کو معاشی میدان میں بھی بھرپور جواب دینے کا عہد کریں۔ بہترین، یکس±و اور ایک آواز معاشی پالیسیوں کے ذریعے جہاں عوام کو بھرپور ریلیف دیں ملک کو آگے بڑھائیں، کشکول توڑ ڈالیں اور دفاعی بنیادوں کو معاشی فولاد فراہم کر کے ناقابلِ تسخیر بنا دیں۔ راستے کٹھن تو ہوتے ہیں لیکن جینے کا سلیقہ آتا ہو تو کوئی راستہ ایسا نہیں جس کی منزل نہ ہو۔ جیسا کہ جاپان تباہ ہو کر دوبارہ معاشی طاقت بن سکتا ہے، جرمنی اپنے پاوں جما سکتا ہے، لندن ہٹلر کی بمباری کے بعد پھر سے آباد ہو سکتا ہے، تو ہم بھی اپنے ارادے، حوصلے اور مسلسل محنت سے اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
”دیرآید درست آید“۔ راستے ہمارے منتظر ہیں جو مشکل اور پ±رخطر ہی سہی لیکن شاندار منزلوں تک پہنچانے کی ضمانت ہیں، کامیابیوں کے لئے ہمت، مسلسل محنت اور اچھی حکمت عملی چاہئے ہوتی ہے۔ بعض اوقات مصلحت سے آگے بڑھ کر منزل پانا ہوتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی کا واقعہ مت بھولیں، ن کے مشیر نے مشورہ دیا کہ ”سب دشمن اکٹھے ہو گئے ہیں اس وقت جنگ ٹالنا ہی مناسب ہوگا“ تو اس شاندار بہادر جرنیل نے بڑے اعتماد سے جواب دیاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ سب دشمنوں سے ایک ساتھ نمٹنے کا اس سے اچھا موقع پھر نہیں ملے گا۔“
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن