ٰیوم تکبیر پاکستانیوں کے لیے فخر کا لمحہ

عبدالستار چودھری 
abdulsattar.ch@gmail.com

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتے ہیں۔ ’’اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان (دشمن) کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔(سورۃ الانفال۔20) قرآن کریم کی اس آیت کا مطلب ہے کہ تمھارے پاس سامان جنگ اور مستقل فوجی ہر وقت تیار رہنے چاہیں۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے بلوچستان کے علاقے چاغی کے پہاڑوں میں سات ایٹمی دھماکے کر کے قرآن پاک کے اس حکم پر عمل کیا۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ آج پاکستان اپنی ہزار کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باجود دشمنوں سے محفوظ مملکت ہے۔ نواز شریف نے قوم کے درمیان مقابلہ کروا کر اس دن کا نام ’’یوم تکبیر‘‘ متعین کیا تھا جس کی وجہ سے قوم ہر سال 28 مئی کو ایٹمی دھماکوں کی خوشی میں یوم تکبیر جوش و خروش سے مناتی ہے۔ اگر پاکستان کے دشمنوں کی بات کی جائے تو خطے میں بھارت کے علاوہ پاکستان کا کوئی دشمن نہیں۔ بھارت نے اپنے بچوں کو یہودیوں کی طرح پٹی پڑھا رکھی ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنا کر ہمارے "گائے ماتا" یعنی ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دیے جس کا جواب  اکھنڈ بھارت ہے۔ ہٹلر صفت، متعصب بھارتی وزیر اعظم نرنیدرا مودی نے  دہشت گرد اسرائیل کی طرح اپنی پارلیمنٹ کے دیوار پر اکھنڈ بھارت کا نقشہ بھی لگا دیا ہے،جس میں وہ بنگلہ دیش سمیت پڑوسی ممالک پر حق ملکیت کا دعوے دار ہے۔ اسی طرح کے صہیونی پارلیمنٹ کے نقشہ میں لکھا ہے۔ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے دریائے دجلہ تک ہیں‘‘ اس میں اْردن، شام، عراق سعودی عرب کے مدینہ تک کا علاقہ شامل ہے۔ بھارت کے ہٹلر صفت، متعصب، مسلم دشمن اور دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی ’’آر ایس ایس‘‘ کے بنیادی رکن ہیں۔ یہ تنظیم بھارت کو اسرائیل کی طرح ایک ہندو کٹر قوم پرست ملک بنانا چاہتی ہے۔ ہندو قوم کو دوسری قوموں سے برتر سمجھتی ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم بھارت سے مسلمانوں کو نکال کر خالص ہند و ملک بنانے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ اس پر انگریز دور میں بھی دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے پابندی لگی تھی۔ بھارت نے پہلے بھی پاکستان کی کمزرویوں سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے، اسی پالیسی پر عمل کیا اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے۔جب سے مسلم دشمن،ہٹلر صفت، متعصب مودی کی آر ایس ایس کے اتحاد سے حکومت بنی ہے۔ بھارت کے لیڈر کہتے ہیں پاکستان کے پہلے دو ٹکڑے کیے تھے اب خدانخواستہ مزید دس ٹکڑے کریں گے۔ متعصب مودی بھارت کے یوم آزادی پر مسلمان مغل بادشاہوں کے بنائے ہوئے یاد گار لال قلعہ دہلی پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے بلوچستان اور گلگت بلتستان سے علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے فون کالز آ رہی ہیں۔ متعصب ہندو لیڈر شپ آج تک    قیام پاکستان کودل سے تسلیم نہ سکی۔
کشمیر کا مسئلہ آج تک پاکستان کے سینے میں رستہ ہوا زخم ہے بھارتی حکمرانوں نے کبھی  اسے  اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے دہی کے قابل نہ سمجھا۔ مقبوضہ کشمیر میں   اپنی فوجیں بھیج کر  جبر و استبداد کے ذریعے اس پرقبضہ کر لیا۔ ریاست کشمیر کے مسلمانوں کی پارٹی ’’مسلم کانفرنس کشمیر‘‘ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر کشمیر کے ہندو راجہ ہری سنگھ کی جعلی الحاق کی دستاویز پر مسلمانوں کی ریاست جو کہ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتی تھی بھارت نے اپنے فوج بھیج کر1947ء  میں اسے محکوم بنا لیا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فوراً پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ لیکن دنیا کی عسکری روایات کو مسخ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل گریسی نے سپریم کمانڈر بانی پاکستان محمد علی جناح کا حکم بھی ٹال دیا۔پھرپاکستانی قبائل نے کشمیری مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہوئے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد جموں کشمیر کے نام سے آزاد کروا لیا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے مابین اب تک مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے جس پر چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ 
اکھنڈ بھارت کا تصور خطے میں پاکستان کیلئے  ایک مستقل  دشمن ملک  کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ،جبکہ  پاکستان اپنے پڑوس میںکسی بھی ملک سے لڑائی نہیںچاہتا۔ چین ہمارا سدا بہار دوست رہا ہے۔ پاکستان کی ایران اور افغانستان سے بھی کوئی مخاصمت نہیں۔ خطے میں صرف بھارت ہی پاکستان کا دشمن ہے۔ بھارت نے 18مئی1974 کو جب پکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو متعصب ہندو لیڈروں نے آسمان سر پر اْٹھا لیا تھا۔ پاکستان کو دھمکیاں دینے لگے تھے۔ اس پر چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے وہ  تاریخی بیان دیا کہ’’ہم گھاس کھا کر گزارا کر لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ بھٹو سے یہ کوشش شروع ہوتی ہے اور ہر پاکستانی حکمران نے ایٹمی طاقت بننے کے لیے اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کیا۔اس میں بڑا حصہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہے۔ بھٹو کو امریکہ کے اْس وقت کے یہودی وزیر خارجہ ہنری کیسنگر نے دھمکی دی کہ ایٹمی پروگرام ختم نہ کیا گیا تو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ پھرجنرل ضیا ء کے دور میں افغا نستان میں امریکی دلچسپی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارا ایٹمی پروگرام محسن پاکستان ڈاکٹر عبالقدیر خان اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے جاری رہا اور بالآخرایک دن آیا جب نواز شریف کی حکومت تھی اور پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں نے بلوچستان کے مقام چاغی کے پہاڑوں میں 28 مئی1998ء کو بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں سات ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف بھارت پر برتری حاصل کی بلکہ اسلامی ممالک کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کا لوہا پوری دنیا سے منوالیا۔ نواز شریف کے سیاسی مخالف پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں کہ نواز شریف ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ امریکا نے پیسوں کا لالچ بھی دیا تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم نے نواز شریف کو کہا تھا کہ اگر آپ نے ایٹمی دھماکے نہیں کیے تو ہم آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور سیاسی قائدین کا بھی دباؤ تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو چیئرمین پیپلز پارٹی کے دور میں ایٹمی پروگرام شروع ہوا اور مسلم لیگ ن کے صدر و وزیراعظم نواز شریف کے دور میں اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا گیا۔بلا شبہ ذولفقار علی بھٹو اور نواز شریف دونوں رہنمائوں کو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کاکریڈٹ جاتا ہے۔ پاکستان اللہ کی طرف سے مثل ریاست مدینہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے تحفہ ہے تو اس ایٹمی  صلاحیت کے حامل ملک کو اکھنڈ بھارت کے    پاکستان دشمن عزائم خاک میں ملانا  بھی ہمارا فرض ہے۔  ہم سب کا فرض ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم کی جدو جہد کے ثمر پاکستان  کو اس کے ازلی دشمن، مکار اور متعصب بھارت سے محفوظ و مامون بناتے رہیں۔ اگر ہم نے امن کے نام پر کمزوری ظاہر کی تو پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں میں بھی مایوسی پھیلے گی۔ اس وقت پھر مسلم لیگ کی صدارت کا تاج میاں نواز شریف پر سج چکا ہے اور جس جرات و بہادری سے آج 34 برس قبل ایٹمی دھماکے کر کے پوری دنیا میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا گیا تھا اسی جرات و بہادری کے مظاہرے کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے مظلوم مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ تھم سکے اور وہ سکھ کا سانس لے سکیں۔

ای پیپر دی نیشن