پی آئی اے کی نجکاری پر سوالات اور عبدالعلیم خان کا جواب

May 28, 2024

محمد اکرام چودھری

کافی دلچسپ خبریں ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے، ویسے تو سیاسی قیادت کے بیانات اب کبھی کبھی کامیڈی ہی لگتے ہیں، کیونکہ یہاں سے کوئی رہنمائی تو ملتی نہیں نہ ہی سیاسی قیادت ملکی مسائل کے حل میں سنجیدگی کا اظہار کرتی ہے، نہ ہی کسی سیاسی نظرئیے، پختہ سوچ اور اتحاد کا پیغام ملتا ہے۔ اس لیے کبھی کبھار ان کے بیانات کامیڈی ہی شمار ہوتے ہیں۔ ویسے میں یہاں سیاسی قیادت کے بیانات کو کبھی کبھار کامیڈی کہتے ہوئے بھی بہت ہی احتیاط سے کام لے رہا ہوں۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ سب سے پہلے عبدالعلیم خان کا ذکر ہو جائے چونکہ انہوں نے ایک قومی مسئلے پر سینیٹ میں نہایت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنازعات میں الجھنے، الزامات لگانے، غیر ضروری بیانات جاری کرنے، سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے غیر متنازع انداز میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کے منصوبے پر اظہار خیال کیا ہے۔ وہ اس کام میں بہت سنجیدگی، احتیاط، ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر انہوں نے پی آئی اے کی نجکاری پر اعتراضات اٹھانے والوں کو جواب دیا ہے۔ عبدالعلیم خان نے حکومتی اراکین یا اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کا تحمل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے یہ فیصلہ اراکین اسمبلی پر چھوڑ دیا کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ ماضی میں جب جب وہ حکومت میں تھے اس وقت پر نظر دوڑائیں کہ کیا جو کام پی آئی اے کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے تھا وہ ہوا یا نہیں۔ یاد رہے کہ پارلیمنٹ میں پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے میں سب سے زیادہ اعتراض ممکنہ طور پر بے روزگار ہونے والے ملازمین کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملازمین کی تعداد کو بڑھاتے ہوئے مختلف حکومتوں نے یہ خیال کیا تھا کہ کیا ان ملازمین کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، کیا پاکستان انٹرنیشنل ایئر ملازمین کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ پی آئی اے کا سالانہ خسارہ آٹھ سو تیس ارب ہو چکا ہے اور مختلف حکومتوں نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو خسارے سے نکالنے کے بجائے ملازمین کی تعداد میں اضافے پر زور دیا اور اس بدانتظامی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ادارہ تباہ ہو چکا ہے، حکومت کے بس میں نہیں کہ اتنا خسارہ ہر سال برداشت کرے، ملکی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور مختلف حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے مختلف ریاستی اداروں کا خسارہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں یہ ممکن نہیں کہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو بھی بہتر بنایا جائے اور اداروں کا خسارہ بھی برداشت کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کا عمل تیز تر ہو چکا ہے۔ 
وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان نے سینیٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی ایئر لائن کا خسارہ بہت بڑھ گیا ہے اور ادارے کو ہر سال سینکڑوں ارب روپے نہیں دئیے جا سکتے۔
پی آئی اے میں ملازمین زیادہ تو ہیں لیکن کم جہاز اڑنے کے باعث سٹاف زیادہ بڑا لگتا ہے، جسے قابل اڑان طیاروں میں اضافہ کر کے متوازن بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس ملازمین زیادہ نہیں ہیں۔ جہاز زیادہ کر لیں تو یہ ملازمین زیادہ نہیں لگیں گے۔ اس ادارے کی تباہی میں سب نے اپنا حصہ ادا کیا۔ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں سہولت دینا ہے۔ حکومت کاروبار کرے تو وہی ہوتا ہے جو پی آئی اے کا حال ہے۔ اس وقت صرف اٹھارہ جہاز چل رہے ہیں اور ادارے کے پاس دس ہزار ملازمین ہیں۔ ادارے کی تباہی میں نچلے طبقے کے ملازمین کا قصور نہیں بلکہ زیادہ بھرتیاں کرنے والے قصوروار ہیں۔ پی آئی اے انتظامیہ درست کام نہیں کر رہی تھی تو اسے تبدیل کرنا کس کا کام تھا؟ پی آئی اے کا خسارہ بڑھتا گیا۔ اس نجکاری میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا، اس عمل میں یقینی بنایا گیا ہے کہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا جائے، نجکاری عمل کے حوالے سے تفصیلات سب کے سامنے ہیں نجکاری عمل کو تنازعات سے بچانے اور کوئی بھی چیز خفیہ رکھنے کے بجائے پی آئی اے کی بڈنگ لائیو نشر کی جائے گی۔ ایک بھی چیز ایسی نہیں ہو گی جس پر میں شرمندہ ہوں۔ پی آئی اے کے پچاس فیصد شیئرز فلوٹ کیے جا رہے ہیں اور یہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ ہو گی۔ میری یہی خواہش ہے کہ ہم اپنے اثاثوں کو بچا لیں۔ پچاس فیصد شیئرز حکومت کے رہیں گے تاکہ اگر بعد میں پی آئی اے کی حالت بہتر ہو تو حکومت کو فائدہ ہو۔ پی آئی اے کی نجکاری آج نہیں کریں تو کیا کریں؟ پی آئی اے اس طرح نہیں چل سکتا۔ اب سو سو ارب روپے پی آئی اے کو دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر پی آئی اے بند ہو گیا تو پھر ملازمین کا کیا ہو گا۔ تین سال تک ملازمین کو ملازمت پر رکھنا کمپنی شرائط میں شامل ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت پی آئی اے ملک لیے شرمندگی کا باعث بن چکا ہے۔ اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری اور فروخت کے حوالے سے توجہ دلاو نوٹس پر پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر قراۃالعین مری نے کہا ان سابق وفاقی وزیر پر آرٹیکل چھ کا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا جنہوں نے کہا تھا کہ پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنسز جعلی ہیں۔
عبدالعلیم خان کے ذمے بہت اہم اور بڑے کام ہیں، نجکاری کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے انہوں نے مختلف اداروں کی نجکاری کے ذریعے ملکی معیشت کو خسارے سے نکالنے کے لیے کام کرنا ہے، ملکی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنے، خسارے ختم کرنے اور معاشی اصلاحات کے سفر پر ہیں۔ جن حکومتوں نے بغیر سوچے سمجھے، پاکستان سٹیل مل، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز سمیت دیگر اداروں میں سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے ملازمین کی تعداد میں اضافہ کیا، نالائق لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے، ملکی خزانے پر بوجھ بڑھتا رہا اور آج یہ حالات ہیں کہ سالانہ آٹھ سو تیس ارب کا خسارہ ہے۔ کیا آئی پی پیز معاہدے کرنے والے، ملکی اداروں کو تباہ کرنے والے، سیاست بچانے کے لیے ملکی معیشت کو ڈبونے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہو گی۔ جہاں تک نجکاری کے موجودہ وفاقی وزیر کا تعلق ہے وہ قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ملکی معیشت پر اس بڑے بوجھ کا بہتر علاج عبدالعلیم خان کی طرف سے بہت بڑی قومی خدمت ہو گی۔ قوم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نظام میں موجود ملک کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا محاسبہ کرے۔
آخر میں امرتا پریتم کا کلام
میں تینوں فیر ملاں گی
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نئیں
شاید!! 
تیرے تخیل دی چِھنڑک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی
یا ھورے!! تیرے کینوس دے اْتے
اک رہسمئی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رواں گی
یا ھورے!! سْورج دی لو بن کے
تیرے رنگاں وچ گھْلاں گی
یا رنگاں دیاں باھنواں وچ بیٹھ کے
تیرے کینوس نْوں ولاں گی
پتا نئیں کس طرح، کتھے
پر تینوں ضرور مِلاں گی
یا ھورے!! اِک چشمہ بنڑیں ھوواں گی
تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈ دا اے
میں پانی دیاں بْونداں
تیرے پِنڈے تے مَلاں گی
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے
تیری چھاتی دے نال لگاں گی
میں ھور کج نئیں جانندی
پر اینا جاندی آں, کہ وقت جو وی کرے گا
اے جنم میرے نال ٹْْرے گا
اے جسم مْکدا اے
تے سب کج مْک جاندا اے
پر چیتیاں دے دھاگے
کائناتی کنڑاں دے ہوندے
میں انہاں کنڑاں نْوں چنڑاں گی
تاگیاں نْوں ولاں گی
تے تینوں میں فیر ملاں گی

مزیدخبریں