محمد اعجاز الحق
رکن قومی اسمبلی
صدر پاکستان مسلم لیگ(ضیاءالحق شہید)
ہمیں بھی یاد کرلینا جب چمن میں بہار آئے
آج سے 26 سال قبل بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکہ کرکے اس خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا تھا‘ جس کا جواب چھ دھماکے کرکے دیا گیا‘ ایٹمی قوت حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں ہر حکومت نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا‘ کسی کے بارے میں بھی یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ فلاں حکومت نے کم اور فلاں حکومت نے اس منصوبے پر ذیادہ کام کیا‘ ایٹمی قوت بن جانا ہر پاکستانی کے لیے فخر کا مقام ہے‘ کہ آج ہم اللہ کے کرم اور فضل سے دشمن سے محفوظ ہیں‘ اب ہمیں معاشی قوت بننا ہے اور عالمی منڈیوں میں پاکستان کا نام روشن کرنا ہے‘ پوری قوم کی توجہ اب معاشی قوت حاصل کرنے پر مرکوز ہوجانی چاہئے‘ اگر ہم اٹھائیسں مئی کی بات کریں تو بلاشبہ بھارت کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں پاکستان کے دھماکے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے‘ وطن عزیز کو ایک ایٹمی ملک بنانے میں بے شمار مدد گار عنصر موجود ہیں‘ ان میں کچھ بیان کے قابل ہیں اور کچھ ابھی تک راز میں ہیں‘ ایٹمی پروگرام کے سفر کی کہانی جب بھی لکھی اور بیان کی جائے گی‘ اس میں ممتاز ایٹمی سائنس دان جناب ڈاکٹر عبد القدیر خان کی کاوش بنیادی پتھر کی حیثیت سے یاد کی جائے گی‘ ملک کے حکمرانوں میں ایوب خان بھی اس کردار کا حصہ ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنا حصہ ڈالا‘ صدرجنرل محمد ضیاءالحق شہید نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور بھارت کو پیغام دیا‘ ایسا کڑک دار پیغام تھاکہ راجیو گاندھی کے پسینے چھوٹ گئے‘ اس پیغام کے بعد بھارت میں جنگ کے سارے جراثیم مر گئے اور راجیو کے ماتھے پر بہنے والے پسینے کو صاف کرنے والا کوئی نہیں مل رہا تھا ‘ آج کا دن ہمارے لیے واقعی ایک خوشی اور مسرت کا دن ہے کہ 28 مئی 1998ءکو آج ہی کے دن پاکستان نے بھارت کی طرف سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں کے توڑ اور جواب کے طور پر ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو ورطہ ءحیرت میں ڈال دیا تھا اور ہمیں ہر وقت آنکھیں دکھانے والا ملک بھارت جیساازلی دشمن بھی اس ایٹمی دھماکے پر انگشت بد نداں رہ گیا۔ 1974ءمیں مئی کے ہی مہینے کی گیارہ تاریخ کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے کی مکروہ اطلاع دی تھی بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اگرچہ ہمارے لیے کوئی دوسرا راستہ یا آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم بھی اس کے جواب اور اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار ہوں۔ امریکہ سمیت اس دور کی دیگر ایٹمی طاقتیں بھی ہمیں اپنے دفاع کا یہ جائز حق دینے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ بھارت کو تو ایٹمی دھماکے کرنے سے نہ روک سکیں لیکن پاکستان پر ہر انداز اور ہر لحاظ سے دباﺅ ڈالنے لگیں۔ کہیں لالچ اور ترغیب کے ذریعے اور کہیں معاشی پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے ہمیں ایٹمی طاقت بننے سے باز رہنے پر مجبور کیا جانے لگا، لیکن پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے عزم صمیم کے آگے کسی کی نہ چل سکی اور پاکستان کی حکومت کو تمام تر دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا‘بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ ایسا بدطنیت ہمسایہ ہے جو ہر وقت موقع میں تلاش میں رہتا اور کسی بھی وقت جارحیت کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ تاریخ........ یہی بتاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ایٹمی سائنس دان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان حکومت کی دعوت پر پاکستان آئے اور اس عظیم کردار کو نبھانے اور آگے بڑھانے کا عزم کیا‘ حکومت نے بھی انہیں تمام دستیاب وسائل مہیا کیے‘ غلام اسحاق خان‘ آغا شاہی جیسے دماغ ان کی معاونت کے لیے تھے اور محترم ڈاکٹر خان صاحب کے لیے ہر کام اوپن ہینڈ تھا‘ لیکن اس سب کے باوجود محترم ڈاکٹر صاحب اپنی راہ میں بہت سی رکاوٹوں کا ذکر کرتے رہتے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا وہ مایوس ہوگئے اور واپس جانے کا ارادہ باندھ لیا تھا لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاءالحق نے حکومت کو صورت حال سے بروقت آگاہ کیا تو اس وقت کی حکومت نے انہیں معاملے کی نگرانی اور صورت حال کا جائزہ لینے کاٹاسک سونپا تو محترم جناب ڈاکٹر خان نہ صرف مطمئن ہوئے بلکہ پہلے سے بھی ذیادہ اطمینان اور تسلی کے ساتھ کام شروع کردیا‘ جنرل محمد ضیاءالحق کی رفاقت میسر آجانے کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ کیونکہ جنرل ضیاءالحق نے انہیں ان کے لب کھلنے سے قبل ہی وہ تمام وسائل مہیا کیے جو انہیں درکار تھے‘ الفاظ تو بھٹو صاحب کے تھے کہ ”ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے“ لیکن اسے عملی جامہ جنرل ضیاءالحق نے پہنایا‘ اور بھرپور عزم کے ساتھ عظیم کام کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس مقصد کے لیے فری ہینڈ دیا گیا اور ان کی مرضی کی ٹیم کے چناﺅ کے مواقع میسر کیے۔ تمام ضروری فنڈز اور ادارہ جاتی معاونت فراہم کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ کے قریب لیبارٹری اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور پھر دن رات اس مقصد کے حصول کے لیے یکسو ہو گئے۔ انہوں نے بیرونی ممالک سے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ضروری مواد منگوایا اور پوری آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ ان کی ٹیم نے دن رات ایک کر کے بالآخر وہ منزل پا لی جس کیلئے وہ مسلسل محنت اور جانفشانی کے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ جنرل محمد ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کے سائنس دانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں اگرچہ ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی گئی تھی۔ تمام کولڈ ٹسٹ کرلیے گئے تھے‘ تاہم پاکستان نے باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا‘ سربراہ حکومت کی حیثیت سے یہ اعزاز محمد نواز شریف کے حصے میں آیا‘ میں خود ان دنوں پارلیمنٹ کا رکن تھا‘ اسی پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب دیا گیا لیکن اس کا بھی اصل کریڈٹ انہی لوگوں کے پاس ہے اور رہے گا ‘ لہذا آج ہم ان سب عظیم اپنے ایک ایک محسن کو یاد رکھیں جنہوں نے اس عظیم کام میں اپنا خون پسینہ بہایا‘ جہاد افغانستان کا دور کبھی اس حوالے سے فراموش نہیں کیا جاسکے گا کہ اسی دور میں ہم خاموشی کے ساتھ ایٹمی قوت بنتے رہے لہذا جہاد افغانستان کا دور اس ملکی‘ قومی اور ملی کامیابی کے لیے خصوصی طور پر یاد رکھا جانا چاہیے بھارت کو جواب دینے کے لیے ایٹمی دھماکے کا فیصلہ ہوا تو اس کیلئے مختلف سائٹس کا دورہ کیا گیا اور آخرکار تمام تر غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑی مقام کو منتخب کر لیا گیا‘ اس ٹیم میں جناب بریگیڈیئر سرفراز علی( مرحوم) شامل تھے جنہیں ان کی بے مثال شاندار کاکردگی کی وجہ سے بعد از وفات ہلال امتیاز عطاءکیا گیا‘ ایٹمی دھماکے کے لیے ٹنل کی تعمیر میں ان کا حصہ ناقابل فراموش رہے گا جب دھماکہ کرنے کا فیصلہ ہو گیا اور اس لمحے کا انتظار شروع ہو جب بٹن دبانا تھا حکومت کی طرف سے گرین سگنل ملتے ہی بٹن دبا دیا گیا اور پھر خوشی اور انبساط کے جذبات میں نعرہ تکبیر سے چاغی کے پہاڑ لرز اٹھے اور پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، بچے، بوڑھے، نوجوان مرد و زن دیوانہ وار گھروں سے باہر نکل کر نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے، /28 ....مئی کا سورج ہماری آزادی و خودمختاری کے تحفظ کا ضامن بن کر طلوع ہوا تھا۔ 1998ءکے بعد سے آج تک ایسے کئی مواقع آئے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکنے کے واضح امکانات پیدا ہو گئے تھے لیکن پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے باعث جنگ کی نوبت نہ آ سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان آج ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک نہ ہوتا تو بھارت اسکی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنے کے عزائم کب کا پایہ تکمیل کو پہنچا چکا ہوتا ‘ پانچ اگست دو ہزار انیس کو اس نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایک مکروہ فیصلہ کیا ہے جسے کشمیری قوم بری طرح مسترد کرچکی ہے اور بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ یہ ہماری ایٹمی صلاحیت ہی ہے کہ جس کی وجہ سے بھارت پانچ اگست کے اقدام سے آگے نہیں بڑھ سکا‘ اب چونکہ وہ پاکستان سے براہِ راست ٹکر لینے کی ہمت نہیں کر سکتا اس لیے وہ چوری چھپے وار کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔چنانچہ 5 اگست 2019ءکو اپنے انہی توسیع پسندانہ عزائم ہی کی تکمیل کے لیے اس نے اپنے غیر قانونی طورپر زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے ملک میں ضم کرلیا۔ وہ اپنی خفیہ ایجنسی ”را“ کی مدد سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے۔ پاکستان مخالف علیحدگی پسند تنظیموں کو لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ ساتھ مالی امداد اور افراد کو ٹریننگ دینے سمیت ہر حربے استعمال کرتا ہے۔ وہ ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ وار سمیت ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتا اور پاکستان میں بدامنی، انتشار اور فرقہ واریت پھیلانے کیلئے پاکستان دشمن عناصر کی مدد حاصل کرتا ہے۔ ہمیںبحیثت قوم اس کے ہر مکروہ حربے پر نظر رکھنی ہے پاکستانی قوم کو اس حوالے سے چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں.... کی چالوں سے باخبر رہنے اور انکے عزائم سے بھی کماحقہ آگاہی کی ضرورت ہے۔ قومی یک جہتی اور اتحاد اس ضمن میں سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ہمیں اس سے ہمہ وقت لیس رہنا ہو گا۔ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ٹرائیکا پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے درپے ہے۔مضبوط عسکری حصار میں ہونے کی بنا پر وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر براہ راست قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے اس کا ہدف پاکستان کو معاشی طورپر دیوالیہ بنانا ہے۔ ہمارا دشنمن سمجھتا ہے کہ معاشی طورپر کمزور ملک ایٹمی اثاثوں کی حفاظت نہیں کرسکتا۔چنانچہ امریکہ اور اس کے حامی ممالک مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان کو اقتصادی طورپر غلام بنانے کے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک ان کیلئے ٹول کا کام کرتے ہیں۔ آج پاکستان اگر معاشی بدحالی کا شکار ہے تو اسکے پیچھے بھی پاکستان دشمن طاقتوں ہی کا ہاتھ ہے۔اس وقت بھی جب کہ پاکستان کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کیلئے مالی بیساکھیوں کی ضرورت ہے اوروہ آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے کو مجبور دکھائی دیتا ہے تو اس نے اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ارب ڈالر کی قسط کی ادائیگی سے قبل کڑی شرائط عائد کردی ہیں حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ایک ایٹمی پاکستان کو معاشی طورپر مضبوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔ بلاشبہ سیاسی اور معاشی طورپر ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان نہ صرف خطے میں امن کے قیام کا ضامن ہوسکتا ہے بلکہ عالم اسلام کیلئے بھی تقویت کاباعث بن سکتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کی بھاری قیمت عالمی اقتصادی پابندیوں کی شکل میں ادا کرنا پڑی اور آج تک خمیازہ بھگتتا چلا آ رہا ہے لیکن ملک کی سلامتی اور بقاءکے لیے یہ قیمت کچھ بھی.... نہیں ہے۔ پوری قوم شدید مالی بحران، معاشی بدحالی اور اقتصادی بندشوں کے باوجود اپنی ایٹمی صلاحیت پر کوئی مفاہمت کر سکتی ہے نہ اس سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ ہم نے پوری دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں ہم امن اور بقائے باہمی کے اصولوں کی پاسداری کرنے والے عالمی قوانین کی پابندی کرنے والے ذمہ دار ملک ہیں لیکن ہم اپنے دفاع کا بہرحال حق محفوظ رکھتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اس جائز اور قانونی حق سے ہمیں محروم نہیں رکھ سکتی
ہمیں بھی یاد کرلینا جب چمن میں بہار آئے
May 28, 2024