دانائے راز

مکرمی! مولانا رومؒ کی مثنوی کے بارے میں یہ معلوم اور معروف تاثر ہے کہ یہ ہست قرآن درزباں پہلوی ہے۔ دور حاضر کے کچھ اہل علم علامہ اقبالؒ کے کلام کے بارے میں اس کے مثل خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اقبالؒ کے عقیدت مند اور ان کے کلام کے ساتھ انتہائی رغبت کے حامل لوگ ان کے کلام کے بیشتر حصہ کو کتاب و سنت کی ترجمانی پر معمول کرتے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہے! اقبالؒ کا قرآن حکیم کے ساتھ شغف اور اس کی ہر صبح تلاوت ان کے معمولات زندگی میں سے تھا حتیٰ کہ جب حصول تعلیم کے لئے یوروپ تشریف لے گئے اور تعلیم و تدریس کی مصروفیات بڑھ گئیں اس کے باوجود ان کی سحر خیزی کا معمول جاری رہا۔
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
قرآن حکیم کے ساتھ ان کے گہرے تعلق کو استوار کرنے میں ان کے گھریلو ماحول کا بہت حصہ تھا، علامہؒ کے مرحوم و مغفور والد نے انہیں آداب تلاوت سے آگاہ کیا اور نصیحت کی کہ تلاوت اس طرح کرو جیسے آیات قرآنی براہ راست تمہارے قلب پر نازل ہو رہی ہیں۔ یہ نصیحت اقبالؒ کے دل میں گھر کر گئی جس کے نتیجے میں فہم قرآن کے در ان پروا ہوتے گئے جو کرامت مکتب و مدرسہ میں ظاہر نہ ہوئی وہ والد کے فیضان نظر سے ظہور پذیر ہوئی یوروپ گئے تو جدید علوم سے بہرہ ور ہوئے، مشہور عالم درس گاہوں، دانش کدوں اور علوم و فنون کے مراکز سے علمی پیاس بجھائی، بلاشبہ وہاں بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ پڑھایا اور سکھایا بھی مگر وہ علم جس سے انسانی قلوب و ارواح روشن ہوتے ہیں اور انشراح صدر حاصل ہوتا ہے اس کا سراغ مقصود رہا!۔
یوروپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیوان ہے یہ ظلمات
یورپ میں حضرت اقبالؒ کے قیام سے بہ حیثیت مجموعی ملت اسلامی کو جو فرنگی تہذیب و تمدن، معاشرت اور ہمہ جہت ظاہری چمک دمک اور اس کی تہ میں مخفی نجاستیں، کثافتیں اور اخلاقی و روحانی انحطاط و زوال کی علامتوں سے آگاہی حاصل ہوئی تو ان کی ساری دل آویزی اور سحر انگیزی کا بھانڈہ پھوٹ گیا اور ترجمان حقیقت نے نوجوانان اسلام کو قرآن حکیم اور اسوہ¿ رسولﷺ سے راہنمائی حاصل کرنے کے ٹاسک کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا اور فرنگیوں کے تہذیبی، معاشی اور علمی غلبے کے اثرات کو محو کرنے کے لئے اپنی ساری خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لے آئے۔ مستقبل میں جو کشمکش ہونے کے آثار ظاہر ہو رہے تھے اس میں ان کا سارا اسلحہ کتاب و سنت اور پیر روم کی مثنوی کا ہی مرہون منت تھا
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے تیرا تیری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن اسی کے فیض سے میرے سبو میں جیحوں
سرور کائناتﷺ کے ساتھ علامہ اقبالؒ کی وابستگی، قلبی اور روحانی تعلق مثالی حیثیت رکھتا ہے وہ جذب و شوق وہ وارفتگی اور والہانہ پن اور عشق محمدﷺ میں ان کی قلبی کیفیات، جن کو حسین و جمیل الفاظ کا جامہ پہنانا خود اقبالؒ کے بس میں تھا مجھ ناچیز گناہ گار کے پاس وہ سفینہ کہاں جو اس بحر بیکراں کی وسعتوں اور پنہاہیوں میں بے خطر ڈال سکوں!
کافر ہندی ہوں میں دیکھ میرا ذوق و شوق دل میں صلوة و درود لب پہ صلوة و درود
آخری سانس سے دس منٹ پہلے معرکة الآراءالہامی اشعار کہے جو جذب و شوق اور فرقت وجدائی کے الم کا آئینہ دار ہیں۔
سرود رفتہ باز آئد کہ نہ آئد۔ نسیمے ازحجاز آئد کہ نہ آئد سرآمد روز گار ایں فقیرے۔ دگر دانائے راز آئد کہ نہ آئد
( پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم بھٹی، کارکن تحریک پاکستان، فون نمبر 7354924)

ای پیپر دی نیشن