پی آئی اے کے ایک طیارے میں فنی خرابی‘ دوسرے کا پائلٹ دوران پرواز بے ہوش ہوگیا۔
ایک وقت تھا کہ قومی ایئرلائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوا کرتا تھا‘ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت باکمال لوگ تھے اور لاجواب سروس تھی۔ لوگ تو آج بھی باکمال ہیں‘ لیکن سروس کی نوعیت بدل گئی۔ جس ملک کے طیارے اڑتے اڑتے تھک جائیں‘ یا انہیں اڑانے والے اپنے حواس کھو بیٹھیں‘ اس ملک کے شہریوں کو امریکی ڈرون سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟اس وقت پی آئی اے کے ہر طیارے کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ چلتے چلتے خدانخواستہ کہیں بھی ”نائن الیون “برپا کر سکتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی طیارہ اقبال کے شاہین کی طرح پرواز جاری رکھتا ہے تو اسے اڑانے والا بے ہوش ہو جاتا ہے۔ پی آئی اے ملک کا ایک کماﺅ پتر تھا اور لوگ اس میں سفر کرکے فخر کیا کرتے تھے‘ لیکن حکومت کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے اسکی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک ہماری قومی ائرلائن پر پابندی لگا چکے ہیں۔
پی آئی اے کی حالت دیکھ کر عام مسافر تو دوسری ایئرلائن میں سفر کرسکتا ہے لیکن حجاج کرام کی تو مجبوری ہے کہ وہ فریضہ حج پر جانے کیلئے صرف قومی ایئرلائن پر ہی سفر کرنے کے ہی پابند ہیں۔ لہٰذا پی آئی اے میں بیٹھ جانے کے بعد انکی قسمت کہ وہ اللہ کے کس گھر جاتے ہیں‘ اس گھر جو زمین پر واقع ہے یا اس گھر جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
حکومت اس قومی ادارے پر رحم کرے اور اسکے اس ماٹو کو دوبارہ زندہ کرے جو کبھی ہوا کرتا تھا کہ:
Great people to fly with PIA
اور اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کرے جو لوگوں کے ذہنوں میں پختہ ہو رہا ہے کہ:
Great people to die with PIA
٭....٭....٭
شیعہ اور سنی میں کوئی تضاد نہیں:تیسرا گروپ ملوث ہے۔وزیراعلیٰ سندھ
جناب والا! تیسرے گروپ کو لگام دینا عوام کا کام ہے یا جناب کا؟ آپ چور چور کی رٹ مت لگائیں اسے پکڑنے کی بھی کوشش کریں،مصلحت پسندی زیادہ اچھی نہیں ہوتی،باالفرض اگر آپ مجبور ہیں یا تیسرے گروپ کا نام لینے سے ڈرتے ہیں تو کسی رات کے اندھیرے میں وزیراعلیٰ ہاﺅس کے باہر نکل کر دیوار پر لکھ دیں کہ تیسری قوت فلاں ہے۔وزیراعلیٰ تو گھر کے بھیدی ہیں انہیں سب کچھ پتہ ہے کہ اندھی گولی کہاں سے چلتی ہے اور ٹریکٹر پر رکھا ہاتھ کس کا ہے لیکن وہ غریب انہی کابینہ کے برطرف وزراءکو دیکھ کر خاموش ہیں ،کہتے ہیں ”دودھ کا جلا پانی بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے “ تو جناب بھی بڑی احتیاط سے تیسرے گروپ کا نام لیتے ہیں بہرحال ایک دن آئیگا کہ حضورِ والا رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیوار پر لکھ ہی دینگے کہ قتل و غارت میں فلاں گروپ ملوث ہے ایسے میں ” سانپ بھی مر جائیگا اور لاٹھی بھی بچ جائیگی“۔
ڈبل سواری پر پابندی شیرجوانوں کی ” پاکٹ منی“ کا ذریعہ بن گئی۔
رشوت کا روگ انگ انگ میں سرایت کرچکا ہے ،پولیس کو خوف خدا ہے نہ خوفِ موت،یہاں تو اوپر سے لیکر نیچے تک باوا آدم ہی نرالہ ہے آپ جو بھی اینٹ اٹھائیں گے اس کے نیچے سے کرپشن کی ہی کی آواز آئیگی،پولیس کا تو پہلا نمبر ہے یہ تو تب تلک مردہ واپس نہیں کرتے جب تک چائے پانی نہ لے لیں ۔
اسی بناءپر کسی نے کہا تھا....
حاکم رشوت ستاں سے فکر گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت‘ چھوٹ جا
میں بتاﺅں تجھ کو تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا تو دے کر رشوت چھوٹ جا
پولیس نے تو شکر کیا ہوگا کہ شکار کرنے کا موقع پیدا ہوا ہے،کافی عرصے بعد شیر جوانوں نے جی بھر کر ”پاکٹ منی“ اکٹھی کی ہے لیکن اس کے باوجود وہ پاﺅں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔10محرم کو موبائل کی بندش کے بعد تو سفارشی فون بھی نہیں بجا ہوگا ،مطلب کہ ”موجاں ای موجاں“۔
٭....٭....٭
منظور وٹو دو دھاری تلوار ہے:عطا مانیکا
صدر زرداری نے یہ تلوار ہم خیال گروپ کیلئے ہی نکالی ہے،اصل ہدف تو عطا مانیکا اور انکے ساتھی ہیں،وٹو نے اس دفعہ صوبائی الیکشن لڑنے کا بھی اعلان کردیا ہے ،صاف ظاہر ہے وہ آجکل وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں،وٹو کے پاس گیدڑ سنگھی ہے جس کی بناءپر وہ سیاستدانوں کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں،صدر زرداری کو چاہئے کہ وہ وٹو سے گیدڑ سنگھی لے لیں تاکہ سیاستدانوں دیوان کی طرح انکے گرد ہی چکر لگاتے رہیں۔وٹو بھی بڑے شاطر ہیں،نہ جانے وہ اپنا ”فن“بیچیں گے یا صدر صاحب کو ”لارے“ ہی لگائے رکھیں گے ایک واقعہ مشہور ہے کہ آثار قدیمہ کا ایک ماہر پرانی چیزوں کی تلاش میں شہر شہر گاﺅں گاﺅں گھومتا پھر رہا تھا ایک گاﺅں کی چھوٹی کی دکان پر اسکو پرانے زمانے کا پیالہ نظر آیا جس میں دکان دار کی بلی دودھ پی رہی تھی اس نے سوچا دکاندار سے پیالہ مانگوں گا تو وہ پیالہ کی اہمیت کو سمجھ جائیگا چنانچہ اس نے بہت اصرار کرکے پانچ ہزار میں بلی خرید لی اس کے بعد دکاندار سے کہا کہ ” یہ پیالہ بھی دے دو اب تمہارے لئے بے کار ہے بلی کو اسی میں دودھ پلاﺅںگا“۔
دکاندار بولا” میاں! کسی اور کو بے وقوف بنانا، اس پیالے کی وجہ سے اب تک بیس بلیاں فروخت کرچکا ہوں“۔
تو جناب منظور وٹو کو بھی شاید صدر زرداری نے اسی مقصد کیلئے وزارت دی پھر پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر بھی بنادیا تاکہ وہ ”گیدڑ سنگھی“ غائب کرسکیں لیکن جناب وٹو تو بڑے ہوشیار ہیں وہ اپنی بلیوں کو اسی طرح بیچتے رہینگے لیکن کسی کو دکاندار کے پیالے کی طرح گیدڑ سنگھی نہیں دینگے ،صدر زرداری بھی جوہر شناس ہیں۔انہوں نے قیمت تو خوب لگادی ہے لیکن وٹوبھی شکار کرینگے اور کسی سے شکار ہونگے نہیں۔