مولانا ظفر علی خان کی برسی

مولانا ظفر علی خان اللہ کو پیارے ہوئے تو والد مرحوم مولانا عبدالمجید سالک نے ان کی شخصیت کو یوں خراج عقیدت پیش کیا: ”مبارک ہے راہ ہستی کا وہ بیدار بخت مسافر، جس نے ابتدائے سفر میں فرنگی کے اقتدار کے خلاف عمل کی کمر باندھی، وہ دیوانہ وار اپنے راستے پر گامزن رہا۔ اس نے مصیبتیں جھیلیں، اس کے تلوﺅں میں چھالے پڑے اور پھوٹے پھر اس نے اس وقت کمر کھولی، جب فرنگی جا چکا تھا، وطن آزاد ہوچکا تھا۔ مبارک ہے وہ زبان و قلم کا دھنی، جس نے ہمارے ادب کو، ہماری خطابت کو، ہماری صحافت کو پستی اور جمود کی زنجیروں سے آزاد کرکے زندگی کے حقائق سے ہم آہنگ کیا۔ جاندار اور حیات افروز پیغام کا حامل بنایا ،جس کی زبان آوری اور قلم کاری نے لاکھوں دلوں میں بیداری، خودداری اور کراری کے شعلے روشن کر دیئے۔ مبارک ہے وہ واجب الاحترام بزرگ مولانا ظفر علی خان جس نے ہم جیسے ہزاروں کو ادب اور سیاست کی ولولانہ زائیوں اور غلغلہ آرائیوں کا رسیا بنایا۔ جب تک اس برعظیم میںاسلام باقی ہے، پاکستان باقی ہے، اُردو زبان باقی ہے، ظفر علی خان کا نام روشن رہے گا، روز بروز روشن تر ہوتاچلا جائے گا۔ “
مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت تھے، اس لئے کہ انہوں نے اُردو کی نرم و نازک اور معتدل مزاج صحافت میں ایک نئی جان ڈال دی، اس میں سیاسی گھن گرج پیدا کی۔ اجنبی راج سے ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جو تادم مرگ جاری رہی۔ اس جنگ نے دوسرے اخبارات کو بھی اس روش پر لا ڈالا اور آزادی صحافت کی جنگ دوآتشہ ہوگئی۔ فن صحافت کے اعتبار سے بھی وہ بابائے صحافت تھے کیونکہ انہی کے عہد میں خبروں پر زیادہ زور دیا جانے لگا۔ ان کی نسبتی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی خاطر بڑی سرخیوں کا آغاز ہوا۔ صحافتی شاعری ان سے پہلے گھٹنوں کے بل چل رہی تھی، انہوں نے اسے ایک باقاعدہ صنف کا درجہ عطاءکیا۔ ادارتی صفحے پر مزاحیہ کالم مستقل طور پر دینے کی ریت ڈالی۔ ان سے پہلے اخبارات کا ادارتی عملہ محدود ہوتا تھا، انہوں نے ہندوستان بھر سے اعلیٰ درجے کے ادیب اور صحافی اکٹھے کئے۔ نیاز فتح پوری، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر ،چراغ حسن حسرت ،مرتضیٰ احمد خان میکش، خدا بخش اظہر، حاجی لق لق اور بے شمار دوسرے ادیب اور صحافی ان کے اخبار میں کام کرتے رہے اگر مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت تھے تو ”زمیندار“ اُم الصحافت کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ جن لوگوں نے ”زمیندار“ میں کام کیا، ان میں سے بیشتر افراد نے اپنے اخبار جاری کئے، گویا دیے سے دیا جلا اور اُردو صحافت میں ایک عظیم تنوع پیدا ہوا۔ ابتداءمیں مولانا تمام اداریے خود لکھتے تھے، جب کار زار سیاست میں تگ و تاز کا وقت آیا تو اداریہ نویسی زیادہ تر دوسروں کے سپرد ہوگئی لیکن سیاسی اور صحافتی شاعری کا بازار خوب گرم رہا۔ ممدوحین کی تعریف میں اور مخالفین کی مذمت میں زوردار نظمیں لکھتے رہے۔ حالات حاضرہ پر ان کے شہ پارے منظوم اداریوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس صنف میں بہت سے لوگ ان کے مقابلے پر اُتر آئے، منظوم معرکہ آرائی بھی ہوئی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ اس صنف کے بادشاہ وہی تھے۔
برعظیم کے مسلمانوں کی کوئی ایسی تحریک نہیں تھی، جس میں وہ پیش پیش نہیں تھے اگر بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے کی سیاسی تحریکوں کی کوئی داستان قلمبند کی جائے تو اس میں مولانا ظفر علی خان کا نام سرفہرست ہوگا۔ قید و بند کے مصائب جھیلے، طلبی و ضبطی ضمانت اور چھاپہ خانوں کی ضبطی سے ان کی صحافتی اور سیاسی زندگی عبارت تھی۔ سامراج کے دشمن تھے ،آزادی کے داعی تھے۔ کانگریس میں شامل ہوئے تواس مقصد کے پیش نظر مجلس خلافت میں کام کیا تو اس غرض سے مجلس اتحاد ملت اور نیلی پوشوں کی تحریک شروع کی تو اسی سبب سے اور مسلم لیگ میں بھرپور حصہ لیا تو اسی مقصد کی خاطر۔ ان سے سیاسی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن ان کی نیک نیتی پر کسی کو شبہ نہیں ہوا۔
عنفوان شباب میں مجھے ان سے قرب حاصل ہوا جو میری زندگی کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تحریک میں سب سے پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوںنے حوصلہ افزائی فرمائی اور ہماری ہر درخواست پر لبیک کہا، ہمارے جلسوں میں آئے، ہمارے مظاہروں میں شریک ہوئے۔ وہ آئیڈلسٹ تھے، ہر چیز مثالی انداز میں کرنا چاہتے تھے لیکن قوم میں نہ اتنا شعور تھا، نہ اتنی بیداری کہ ان کے آئیڈیلزم کے ساتھ چل سکتی، اس لئے ان کے بعض منصوبے ناکام بھی رہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خود ناکام رہے، انہوں نے حق کی آواز بلند کی، تسلسل اور تواتر سے بلند کی، مخالفتیں برداشت کیں، دارورسن کی آزمائشوں سے گزرے اور اسی تگ و دو میں جان ہار دی اگر وہ کسی موقع پر حوصلہ ہار جاتے تو یہ بات محل نظر ہوتی لیکن ان کا حوصلہ ہمیشہ بلند رہا اور یہی ان کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ان کی سیاسی زندگی میں بہت سے اُتار چڑھاﺅ آئے، بیشتر مرحلوں میں وہ قوم کے محبوب رہے لیکن ایسے کٹھن مرحلے بھی آئے جب عوام نے ان پر زندگی اجیرن کر دی لیکن کیا بات تھی اس مرد مجاہد کی کہ کوئی طاقت اسے اعلائے کلمتہ الحق سے باز نہ رکھ سکی اور انہوں نے جو کچھ کیا، ضمیر کی آواز کے مطابق کیا۔
ظفر علی خان بہت بڑے ادیب اور انشاءپرداز بھی تھے بلکہ زندگی کا آغاز ادب ہی سے کیا۔ ”دکن ریویو“ کے نام سے جو علمی مجلہ شائع کیا ،اس کے فائل آج بھی پڑھنے کے قابل ہیں۔ ”ستارہ صبح“ کے نام سے جو غیرسیاسی ہفت روزہ نکالا ،وہ بھی علمیت اور ادبیت کا حامل تھا۔ انہیں زبان پر بے پناہ عبور حاصل تھا، بڑے بڑے اہل زبان ان کی زبان دانی کے قائل تھے اگر صرف شعر و شاعری تک محدود رہتے تو اقبالؒ کے بعد سب سے بڑے شاعر ہوتے لیکن وہ سیاسی اور صحافتی شاعری کی طرف زیادہ مائل رہے جو بہرحال عارضی نوعیت کی ہوتی ہے، اس کے باوجود ان کے شعری مجموعوں میں ایسا کلام مل جاتا ہے جسے اُردو شاعری کی تاریخ میں ایک مستقل مقام حاصل ہے۔
میں انہیں اس لئے بھی پیار کے ساتھ یاد کرتا ہوں کہ انہیں مجھ سے پیار تھا۔ آغا شورش کاشمیری تو ان کے معنوی فرزند تھے، سیاست میں ہمرکاب تھے۔ ان کی صحبت سے بہت فیض یاب ہوتے رہے اور ان سے بہت کچھ حاصل کیا۔ مجھ سے پیار اور نوعیت کا تھا اور وہ تھا ابن سالک ہونے کی حیثیت سے اور کچھ مسلم طلبہ کی تحریک میں شرکت کی وجہ سے ان کے فرزند مولانا اختر علی خان میرے والد کے ہم عصر تھے، مجھے ان سے بھی شرف نیاز مندی حاصل تھا۔ ان کے پوتے منصور علی خان میرے ہم عصر ہیں، ان کے ساتھ بھی میرا بہت پیار ہے۔ مولانا کے بھائی چودھری غلام حیدر خان مسلم ٹاﺅن میں رہتے تھے، ان کی عمر میرے باپ کی عمر سے بھی کہیں زیادہ تھی لیکن وہ اکثر میرے ہاں آیا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے سوتیلے بھائی پروفیسر حمیداحمد خان میرے استاد بھی تھے اور مرشد بھی۔ مولانا حامد علی خان سے میرے گہرے مراسم ہیں۔ حمید احمد خان کے فرزند اور حامد علی خان کے داماد سعید احمد خان سے بھی مجھے بہت پیار ہے۔ پروفیسر محمود احمد خان سوتیلے بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور مجھ پر بہت شفقت فرماتے ہیں۔ والد مرحوم کہاکرتے تھے کہ اس خاندان کے تمام افراد میں خلوص اور گرمجوشی کے عناصر بے حد نمایاں ہیں اور میرا تجربہ اور مشاہدہ بھی اسی رائے پر صاد کرتا ہے۔
لاریب، ظفر علی خان نابغہ روزگار تھے، ایسے نابغہ روزگار جنہیں دھرتی کبھی کبھی جنم دیتی ہے۔ ایسے میں اگر میں ان سے محدود قرب پر نازاں ہوں تو اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے۔

ای پیپر دی نیشن