دنیا کے سب سے مہنگے ، دلکش و دلربا ہیرے کوہ نور کا ہزاروں صدیوں کا سفر دلچسپ ، رنگین و حسین اور کہیں کہیں سنگین بھی ہے۔وقت کے ساتھ اس کی ملکیت بدلتی رہی لیکن آب و تاب میں فرق نہیں آیا۔ گو اسے مردوں کے لئے منحوس کہا جاتا ہے۔ اسے پانے کی جستجوتو بہت سے حکمرانوں میں پائی گئی تاہم اس کے حصول کیلئے کبھی جنگ و جدل نہیں ہوئی۔ البتہ جنگوں میں فتح کے نتیجے میں یہ ہیرا کچھ بادشاہوں کی دسترس میں ضرور آتا رہا۔
ابراہیم لودھی کو شکست دی توبابر کو مال غنیمت میں یہ ہیرا ملا۔ نادر شاہ درانی نے دلّی کو لوٹا تو کوہ نور ہیرے سے مزین شاہجہاں کے تختِ طاﺅس کو بھی ایران لے گیا۔ یہ ہیرا درانی کا سپہ سالار احمد شاہ ابدالی افغانستان لے آیا جو اس کے پوتے شاہ شجاع کی ملکیت میں آ گیا۔ 1809ءمیں اسے تخت سے معزولی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ لاہور میں مہاراجہ پنجاب رنجیت سنگھ کے پاس چلا آیا۔ رنجیت سنگھ کو اس کے پاس ہیرے کی موجودگی کا علم ہوا تو شاہ شجاع اور اس کے خاندان کی بڑی آﺅ بھگت کی۔موقع مناسب جان کر رنجیت سنگھ نے اس سے ہیرا طلب کیا۔ شجاع نے ٹال مٹول کی تو اس کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ جان کو خطرے میں دیکھ کر شجاع نے ہیرا رنجیت سنگھ کے حوالے کر دیا۔ یک چشمِ گل رنجیت نے ہیرا اپنی ہتھیلی پر رکھتے اور زیر لب مسکراتے ہوئے شجاع سے پوچھا۔”اس کی قیمت کیا ہو گی“۔ شجاع جو غصے اور صدمے کی کیفیت میں تھا، جواب دیا۔”اس کی قیمت لاٹھی ہے۔ جس کے پاس لاٹھی ہے یہ اسی کی ملکیت میں چلا گیا۔ آج تمہارے پاس لاٹھی ہے تم نے مجھ سے چھین لیا کل کوئی تم سے طاقتور تمہیں بھی اس سے محروم کر دے گا۔
شاہ شجاع نے کوہِ نور ہیرے کی قیمت ”لاٹھی“ بالکل درست بتائی تھی۔ اُس قول ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ محاورے کی بھی تائید ہے لیکن اصل طاقت لاٹھی میں نہیں،اس ہاتھ میں ہوتی ہے جس نے اسے تھام رکھا ہو۔لاٹھی کی اہمیت انگریزی کے اس فقرے یا محاورے سے مزیدواضح ہو جاتی ہے :
The man behind the Gun is more Important
”بندوق سے زیادہ اہمیت اس کو اُٹھائے ہوئے ہاتھ کی ہے۔“ ہم آج تک ایران کی امریکہ کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑے ہونے کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ ایران نے اب اپنا جوہری پروگرام عالمی طاقتوں(پی فائیو پلس جرمنی) کی خواہش پر محدود کرنے کا معاہدہ کر لیا اس سے یقیناً ایران عالمی پابندیوں کی زد سے نکل گیا۔ اس معاہدے کے بعد نواز شریف کی حکومت نے بھی سُکھ کا سانس لیا جو حیلوں بہانوں سے گیس پائپ لائن معاہدے کو ناقابل عمل قرار دے رہی تھی۔ایران کے ایٹمی پروگرام محدود کرنے کے معاہدے سے پاکستان کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ ایران کی ترقی و خوشحالی کے راستے مزید وسیع ہونگے۔ عالمی امن کے گرد نظر آتے خطرات ٹل گئے ہیں۔ ایران کے حامی ممالک کی آزمائش بھی ختم ہوئی تاہم ایران کے حوالے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جن ہاتھوں میں لاٹھی تھی‘ وہ لرزنے لگے اور اس پر بھی امریکی لاٹھی بھاری پڑ گئی۔ اس سے ان لوگوں کو مایوسی ہوئی جو توقع کر رہے تھے کہ ایران کے زندہ جاوید ہوتے ہوئے امریکہ اس سے اپنی بات نہیں منوا سکتا۔ ایسی نوبت اسی صورت آ سکتی ہے جب سعد اللہ شاہ کے بقول ....ع
میرا سر بھی تو پڑا ہے میری دستار کے ساتھ
ایران کے عالمی طاقتوں کے معاہدے کے بعد امریکہ کے سامنے مزاحمت کی آخری علامت بھی معدوم ہو گئی۔ مبارک کس کو دی جائے، مزید خوشحالی کی راہ پر چلنے پر ایران کو یا دنیا کی طاقت مکمل طور پر مٹھی میں بند ہونے پر امریکہ کو؟
ایک لاٹھی ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ میں بھی ہے۔ عالمی معاملات ہوں تو اس کو اٹھائے ہاتھ لرزتے اور ٹانگیں کانپتی ہیں۔ ڈرون برس رہے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں ”ہم دل سے حملوں کے خلاف ہیں“امریکی حکام اور میڈیا کہتا ہے ”حملے پاکستان کی مرضی سے ہوتے ہیں“ ڈالر ویلوں کی برسیں اور اُٹھانے والے بھی وہی ہوں جن پر نچھاور ہو رہے ہیں اور ان کا کوئی حساب کتاب بھی نہیں، تو سچائی تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی البتہ حکومت ڈرون حملے بند کرانے کی کوششوں کا بھرپور تاثر دے رہی ہے۔ عمران خان بھی ایسا چاہتے اور بغیر لاٹھی ہی کے کوشاں ہیں۔اگر حکومت ڈرون حملے رکوانے میں مخلص ہے تو اسے عمران خان کا ممنون ہونا چاہئے لیکن اس کے ترجمان آگ بگولہ دکھائی دیتے ہیں۔
بات اپنے وطن اور ہم وطنوں کی ہو تو حکومتی لاٹھی برق رفتاری سے چلتی اور بجلی کے طرح کڑکتی ہے ۔ اس سے اداروں کی ہڈی محفوظ ہے نہ عوام کی پسلی۔ یہ آئین اور قانون پر بھی پڑ جاتی ہے۔ آج ملک میں جنگل کا قانون نظر آتا ہے ۔ بجلی ،پٹرول اور کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئیں۔بدامنی ،لاقانونیت اور دہشتگردی کے عذاب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔میاں نواز شریف کشمیر اور کشمیریوں کو نظر انداز کر کے بھارت پربدستور فریفتہ ہیں۔اداروں کی اصلاح کے بجائے ان کو بیچا جارہا ہے۔اقربا پروری راز نہیں رہی ۔بڑے صبر آزما انتظار کے بعد میاں نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف اورجنرل راشد کو جوائنٹ سروسز چیف مقرر کر دیا۔ ان جرنیلوں کو عہدے مبارک ہوں مگر میاں صاحب نے ایک بار پھر سب سے سینئر جرنیل ہارون اسلم کو نظرانداز کرکے میرٹ پر ڈنڈی مارنے کی روایت برقرار رکھی اور اپنے اوپر ہی گزری ہوئی ”تاریخ“ سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حسب سابق میاں صاحب کی لاٹھی میرٹ پر بھی پڑ گئی۔اتنے دن شاید یہ سوچتے رہے کہ یہ عہدے بھی مےرے ہی پاس آجائیںجس طرح کئی وزارتیں دستبرد میں ہیں۔ آج سپریم کورٹ میں طلبی ہوئی اور” عزت افزائی“ کا یقین تھا تو وزارت دفاع خواجہ آصف اور قانون کی وزارت پرویز رشید کے حوالے کردی۔
ایک لاٹھی اللہ بھی ہے جو بے آواز ہے۔ کم از کم دو دوبار نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے سر پر پڑی اورتیسری بار میاں صاحب اندازِ حکمرانی اطوارِ شہنشاہی سے اسے دعوت دے رہے ہیں۔اللہ نے اگر لاٹھی تھما دی ہے تو اسے انصاف کی بالادستی، عوام کی بھلائی ،میرٹ کی عملداری اور ملکی وقار کی سربلندی کے لئے استعمال کریں۔