شمال مشرقی فرانس میں آرگون کی پٹی دراصل چٹانی پہاڑیوں کے وسیع سلسلے کیساتھ ساتھ چنار اور شکر کے خوبصورت اور بلند وبالا درختوں والے جنگلات پر مشتمل ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں مختلف محاذوں پر لڑی جانیوالی لڑائیوں کا ایک خوفناک باب اِنہی جنگلات میں رقم ہوا۔ یہ لڑائی اتحادیوں کی ایک بڑی جنگی مہم کی صورت میں پیش آئی، جو بعد ازاں سارے مغربی محاذ پر پھیل گئی تھی۔ 26ستمبر 1918ء سے شروع ہوکر آنیوالے 47دنوں تک لڑی جانیوالی یہ جنگ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی لڑائی سمجھی جاتی ہے، اس جنگ میں امریکہ نے اپنے بارہ لاکھ فوجی جھونک دیے تھے۔ یہ لڑائی تاریخ میں سو یوم مبارزت (Hundred Days Offensive)کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ اگرچہ اس لڑائی میں امریکہ اور اسکے اتحادی فرانس کو جرمنی کیخلاف فتح نصیب ہوئی تھی لیکن امریکہ اور فرانس کا مجموعی جانی نقصان جرمنی سے کہیں زیادہ تھا۔ 3اکتوبر کو امریکی فوج کی نو کمپنیاں اِس لڑائی کے دوران باقی امریکی فوج سے بچھڑ گئیں، جنہیں تاریخ میں(Lost Battalion) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جنگلات میں بچھڑ کر اِن کمپنیوں کے 554فوجی براہ راست اپنی ہی فوج کے نشانے پر آگئے تھے، چونکہ اُس زمانے میں لاسلکی ذرائع مفقود تھے، اس لیے امریکی آرٹلری کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ اُنکی گولہ باری کا نشانہ کون بن رہا ہے؟ اِس ’’لاسٹ بٹالین‘‘ اور امریکہ آرٹلری کے درمیان جرمن فوج موجود تھی، جس کی وجہ سے یہ ’’لاسٹ بٹالین‘‘ وہاں سے نکل بھی نہ سکتی تھی۔ امریکی فوجی اپنی ہی فوج کی فائرنگ سے دھڑا دھڑ مرنے لگے تھے۔ جو فوجی بمباری سے بچ گئے ، اُن امریکی فوجیوں نے اپنی آرٹلری کو پہلا پیغام (بہت سے فوجی مارے جاچکے اور بہت سے زخمی ہوچکے ہیں، ہم یہاں سے نہیں نکل سکتے) بھیجا لیکن یہ پیغام لے جانیوالا پیغام رساں امریکی فوج کی آنکھوں کے سامنے ہی جرمن بمباری کا نشانہ بن کر مارا گیا۔ جنگل میں پھنسے امریکی فوجیوں نے دوسرا پیغام (ہمارے جوان مشکل میں ہیں، کیا کمک بھیجی جاسکتی ہے؟) بھیجا، لیکن اس پیغام رساں کا حال بھی پہلے پیغام رساں جیسا ہی ہوا۔ اگلے روز تیسرا پیغام (ہم عین اِس جگہ پر موجود ہیں،جہاں ہماری فوج بمباری کررہی ہے، خدا کے واسطے اِسے رُکواؤ) بھیجا گیا، یہ تیسرا پیغام لیکر جانیوالی ’’ شیر ایمی‘‘ تھی۔ اگرچہ وہ بھی جرمن بمباری کی زد میں آئی لیکن شیر ایمی نے ہمت نہ ہاری اور کسی ناں کسی طرح پچیس میل دُور امریکی آرٹلری کے پاس پہنچ گئی اور یوں جنگلات میںپھنسے فوجیوں کا پیغام امریکی آرٹلری تک پہنچ گیا۔ امریکی فوج نے اپنے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کی ’’لوکیشن‘‘ کا پتہ چلنے پرکمک بھیج کر اُنہیں بچالیا۔ یہ سب کچھ شیر ایمی کی وجہ سے ممکن ہوسکا تھا جو کامیابی سے پیغام امریکی پڑاؤ تک لے آئی تھی، لیکن خود شیر ایمی انتہائی بری حالت میں تھی۔ جرمن فوج کی بمباری سے شیرایمی کا سینہ شدید زخمی ہوا تھا، اُسکی ایک ٹانگ ٹوٹ کر لٹک گئی تھی، جبکہ بارود پھٹنے سے اُسکی ایک آنکھ بھی ضائع ہوچکی تھی۔ شیر ایمی کو طبی امداد کیلئے آرمی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کا علاج کافی لمبا چلا لیکن ڈاکٹر شیرایمی کی ٹانگ کو نہ بچاسکے، البتہ شیر ایمی کو لکڑی کی ٹانگ لگانے کا تجربہ کامیاب رہاتھا۔ سینکڑوں فوجیوں کو بچانے پر شیر ایمی صرف فوجیوں کی ہی نہیں بلکہ فرانسیسی اور امریکی عوام کی بھی ہیرو بن چکی تھی۔ اسی لیے فرانس نے شیرایمی کو بہادری کے سب سے اعلیٰ ایوارڈ ’’کوئریکس دی گؤیرے‘‘ سے نوازا۔ مزید علاج کیلئے جب شیر ایمی کو امریکہ روانہ کیا گیا تو امریکی فوج کا کمانڈر جنرل جان جوزف پرشنگ اُسے خدا حافظ کہنے کیلئے خود بندرگاہ پر موجود تھا۔ اُدھر امریکہ پہنچنے پر شیر ایمی کا شاندار استقبال کیا گیا اور ہر کوئی اس کی بہادری کے گن گاتا پھرتا تھا۔ امریکہ کے فوجی اسپتال میں شیر ایمی کا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھ کر علاج کیا جاتا رہا، لیکن اسکے جسم کا اندرونی حصہ اس بری طرح سے متاثر ہوچکا تھا کہ امریکی ریاست نیو جرسی میں من ماؤتھ کے قلعے میں دوران علاج ہی اسکی سانسیں پوری ہوگئیں۔ شیر ایمی جانبر نہ ہوسکی اورتیرہ جون 1919ء کو اُس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔امریکہ میں شیر ایمی کی موت کا ماتم اُسی طرح کیا گیا جو ہر طرح سے ایک بہادر فوجی ہیرو کے شایان شان تھا۔ شیر ایمی کی موت کے بعد اسے یاد رکھنے کیلئے امریکیوں نے انوکھا طریقہ نکالا اور شیر ایمی کی ’’لاش‘‘ کو دفن کرنے کی بجائے اسے حنوط کرلیا گیا۔ شیر ایمی کا حنوط شدہ جسم آج بھی ’’نیشنل میوزیم آف امیریکن ہسٹری‘‘ میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس میوزیم میں آنیوالے سیاح شیر ایمی کو سیلوٹ کیے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ یہ پیغام رساں شیر ایمی کوئی امریکی فوجی نہیں تھی بلکہ وہ تو امریکی فوج کی سگنل کور کی پیغام رساں کبوتری تھی، جس نے اپنی جان پر کھیل کر دو سو کے لگ بھگ امریکی فوجیوں کی جانیں بچانے کا پیغام آرٹلری تک پہنچایا تھا۔
قارئین کرام!!انسانی جان کی قدرو قیمت کیا ہوتی ہے؟ یہ جنگوں پر جنگیں لڑے جانیوالے انسانوں کو تو شاید ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی، لیکن ہلاکت خیزیوں کے بارے میں انسان کے اپنے ہی سدھائے ہوئے چرند پرند اور جانور بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید انسانوں سے زیادہ جنگوں کا رزق بننے والے گھوڑے، اونٹ، ہاتھی اور دیگر چرند پرند جنگوں کی بو سونگھ کر ہی بدکنے لگتے۔ اُنکے نہ بدکنے کی واحد وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ وہ جنگوں میں ہلاکت خیزی کا باعث بننے کی بجائے ہلاکت خیزی کو روکنے کا سامان زیادہ بنتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کھوپڑیوں کے مینار ہفت کشورکشائی کیلئے کھڑے کیے جائیں یا انسانی لاشیں ایک ملک پر قبضہ کرنے کیلئے بچھائی جائیں، ایک حکومت بچانے کیلئے انسانی جانوں سے کھیلا جائے یا ایک حکومت گرانے کیلئے انسانی جانوں کا چارہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے، انسانی زندگی سے کھیلنا کل بھی گناہ تھا اور آج بھی ثواب کا کام نہیں ہے۔اس کے برعکس ایک انسانی جان کو بچانا کل بھی پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف تھا اور آج بھی ایک انسان کی زندگی بچانا سب سے بڑا کارِ ثواب ہے۔ انسانی جان کی قدوقیمت کیا ہے؟ یہ کھلا راز ایک صدی قبل ایک کبوتری کو بھی معلوم تھا، لیکن انسان آج بھی یہ آفاقی سبق فراموش کیے ہوئے ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں اقتدار کی ہوس میں لاشوں کی خواہش رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے یہ ’’رہنما‘‘ بس اِک اقتدار کی ہوس میںاپنے ہی لوگوں کو مارنے اور مروانے پر بھی کوئی شرمندگی، کوئی پشیمانی یا کوئی احساسِ گناہ محسوس نہیں کرتے اور اسی لیے ہماری حالیہ تاریخ بارہ مئی، سترہ جون، اکیس جون ، سات جولائی اور اکتیس اگست جیسے سانحات سے بھری ہوئی ہے۔ افسوسناک طور پر ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے ایک بار پھر ایک دوسرے کو تیس نومبر کیلئے للکارا جارہا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں مخالفین کی تکا بوٹی کرنے، پرخچے اُڑانے اور دھجیاں بکھیر کر رکھ دینے والے شیروں کی تو کوئی کمی نہیں لیکن اپنی جان پر کھیل کر انسانوں کو بچانے کا عزم، ہمت اور حوصلہ رکھنے والی شیر ایمی ایک بھی نہیں ہے۔