اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

مائیکل چوسو ڈوسکی کینیڈا کا ایک دانشور ہے جو اوٹاوا یونیورسٹی میں معاشیات کا پروفیسر ہے اور انسانی حقوق کا بین الاقوامی انعام یافتہ ہونے کے علاوہ ریپبلک آف سربیا سے گولڈ میڈل بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ مائیکل بہت سی کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ پروفیسر مائیکل نے اقوام متحدہ میں کنسلٹنٹ کے فرائض بھی انجام دئیے ہیں۔ وہ جنوبی امریکہ اور افریقہ کی بہت ساری ریاستوں کا ایڈوائزر بھی رہ چکا ہے لیکن مائیکل کی دنیا میں مشہوری کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ نیولبرل ازم یا ملکی معاشی آزادی کے تصور کے خلاف ہے۔ پروفیسر مائیکل نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے :
Towards a World War III Scenario
گلوبل ریسرچ نے اس کو جدید دور کی بیسٹ سیلنگ کتاب کہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ڈینس ہیلی ڈے نے کہا ہے کہ آج کی دنیا میں جہاں بین الاقوامی سفارتکاری حالات درست کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے وہاں یوکرائن اور مشرق وسطیٰ میں حالات نازک ترین ہو گئے ہیں۔ آج جب انسانی حقوق کے نام پر جارحیت کا ارتکاب ہو رہا ہے اور منصوبہ بندی کر کے ممالک پر حملے ہو رہے ہیں یہ کتاب ایک آخری وارننگ سمجھی جا رہی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے امریکہ ایک ایسی فوجی مہم جوئی پر نکل پڑا ہے جس سے انسانیت کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے ویپن آف ماس ڈیسٹرکشن یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار دراصل امن کے ہتھیار ہیں چونکہ یہ ہتھیار انکے ہاتھوں میں ہیں، انکے خیال میں چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں سے بھی نواحی آبادیاں محفوظ رہیں گی اور Pre emptive یا پہل کر کے ایٹمی جنگ کو شروع کرنا بین الاقوامی امن کیلئے ضروری ہے۔ یہ سب اُنکی بدنیتی پر مبنی سوچ ہے۔
پروفیسر مائیکل کے خیال میں افغانستان اور عراق میں انسانی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصانات کا پھر بھی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن جدید ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں اگر تیسری جنگِ عظیم شروع ہو گی تو انسانی تباہی و بربادی کا اندازہ لگانابھی مشکل ہو جائیگا۔ آج ہمیں یہ درس دیا جا رہا ہے کہ دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے مختلف ممالک میں ملٹری اپریشن کرنے ضروری ہو گئے ہیں۔ امریکہ اب یہی منصوبہ بندی کر رہا ہے کہ پورے کرۂ اراض پر اسکی مؤثر حکومت کیسے قائم ہو اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے دنیا کے ہر خطے میں اپنے عسکری اڈے قائم کر لئے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے ایک میڈیا یلغار کی جاتی ہے جس سے لوگوں کو اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ اُنکی جان و مال کی حفاظت کرنے کیلئے دنیا میں نئے جنگی محاذ کھولنے کتنے ضروری ہیں۔
The Perpetrators of war are presented as victims.
یعنی ظالم کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور لوگوں کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔ چند مغربی مفکرین کے مطابق اس جھوٹ کا پول کھولنا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے جنگیں کرنا نہایت ضروری ہے دراصل پوری دنیا کو تباہی سے بچانے کے مترادف ہو گا۔ پروفیسر مائیکل کا کہنا ہے کہ میری کتاب کا مقصد یہ ہے کہ تیسری جنگِ عظیم کی تباہی سے دنیا کو محفوظ کیا جائے اور بڑے بڑے عہدوں پر اونچے اونچے دفاتر میں بیٹھے ہوئے مجرموں اور اُن کی مدد کرنیوالے اسلحے اور تیل کے بیوپاریوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے یا پھر اُنکے ناپاک ارادوں سے جو بڑے پیمانے پر انسانیت کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں دنیا کو آگاہ کیا جائے۔
ڈاکٹر محبوب اے خواجہ جو بین الاقوامی امن و سلامتی اور Conflict Resolution کے ماہر ہیں اور اس موضوع پر بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں کی حالیہ ایک کتاب کا عنوان ہے ’’گلوبل پیس اینڈ کنفلِکٹ مینجمنٹ‘‘ جو جرمنی میں چھپی، اُنکے خیال میں امریکہ اپنی بیمار معیشت کو سہارا دینے کیلئے نئے نئے محاذ یا میدان جنگ کھولتا ہے۔ مطلب یہ کہ جنگوں کی وجہ سے امریکہ اور مغربی اسلحے کے بڑے بڑے کارخانے دن رات دنیا میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور گولہ بارود بیچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس اسلحہ کی قیمت بھی وہی ممالک ادا کرتے ہیں جن کے صحنوں میں جنگی شعلے بھڑکائے جاتے ہیں، دوسرا یہ کہ اِن ممالک کے تیل اور گیس کے ذخیروں پر قبضہ کر کے وہاں عسکری اڈے بنا لئے جاتے ہیں، تیسرا یہ کہ خطے کے دوسرے ممالک جن کو اپنی قومی سلامتی خطرے میں نظر آتی ہے وہ بھی اپنے تحفظ کیلئے امریکہ اور مغربی اسلحہ خانوں سے ہر طرح کا اسلحہ خریدتے ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی خصوصاً مشرق وسطیٰ کے حوالے سے صرف تباہی اور قتل و غارت سے عبارت ہے۔
ایک امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ کولین راے نے ایک سوال پوچھا ہے کہ
Why do Americans hate beheading but love drone killings.
یعنی امریکن ایک طرف تو دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے سر قلم کرنے کی کارروائی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن دوسری طرف ڈرون سے لوگوں کو ہلاک کر کے خوش ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ دانشور پروفیسر نام چومسکی لکھتا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والوں میں امریکہ سرفہرست ہے، اس کے علاوہ سی آئی اے کے سابق تجزیہ نگار گراہم فلر نے کہا :
I think USA is one of the key creators of ISIS.
یعنی میرے خیال میں داعش جیسی سفاک تنظیم قائم کرنے میں امریکہ کا کلیدی کردار ہے۔ آگے جا کر سی آئی اے کا یہ Analyst لکھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اندر امریکہ کی تباہ کن مداخلت اور عراق پر بے مقصد یلغار نے داعش کو جنم دیا۔ ایک اور مغربی تجزیہ نگار پائول لاؤرڈر لکھتا ہے کہ کیا مسلمان اب ایک صلاح الدین ایوبی کے منتظر ہیں کہ وہ فلسطین کو آ کر آزاد کروائے اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ یاد رہے کہ صلاح الدین ایوبی وہ مسلمان سالار تھے جنہوں نے فلسطین کو یہودیوں کے 88 سالہ قبضے سے چھڑایا تھا۔ امریکہ کی اینٹی گن لابی یا وہ لوگ جو ہتھیار اٹھانے کے مخالف ہیں کیمطابق امریکہ میں ہر سال Violance سے 32000 امریکی ہلاک ہوتے ہیں اسکے علاوہ وہ افغانستان اور عراق کی جنگوں میں حصہ لیکر واپس امریکہ آنیوالوں میں سے اس رپورٹ کے مطابق 18 سے 25 فوجی روزانہ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ یہ اطلاع ’’اَن کامن تھاٹ جرنل‘‘ کے 14 اپریل 2014ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس جرنل کے مطابق امریکہ کو عراق پر حملے کی بجائے اِن پہلوئوں پر غور کرنا چاہئے۔
قارئین یہ سچی بات ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اور خصوصاً سابقہ سوویت یونین کی توڑ پھوڑ کے بعد مغرب کا واحد ہدف اسلامی دنیا تھا جو اب بھی ہے۔ بگرام اور گوانتا نامو جیسے بدنام زمانہ ٹارچر سیلز میں مسلمانوں کو جسمانی قید میں ہی نہیں رکھا گیا بلکہ اُن کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا، اُنکی سوچ ختم کر دی گئی۔ غیر انسانی سلوک کیساتھ ساتھ اِن بے گناہ مسلمانوں کی گفتار پر بھی پابندیاں تھیں۔ لیکن امریکہ اور مغرب کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ رومن بادشاہت اور انگریزوں کی دنیا پر اجارہ داری برفانی تودے کی طرح ایسے دیکھتے ہی دیکھتے پگھل کر نالیوں میں بہہ گئی کہ انسانی آنکھ کو یقین نہیں آتا تھا۔ مغربی رعونت کے اب دن گِنے چُنے ہیں یہ وقت ہمیشہ کیلئے نہیں رہتا، ظلم ختم ہو جائیگا۔ اللہ کا ایک اپنا نظام ہے۔ ہر کمالِ را زوال۔ وہ سپر طاقتیں جنہوں نے انصاف کا دامن چھوڑا اور انسانیت پر مظالم کو اپنا شعار بنایا وہ جلد یا بدیر تباہی کے گڑھے میں ضرور کرینگی۔ فیض احمد فیض کے اِن اشعار پر کالم ختم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں  ؎
جسم پر قید ہے جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے مگر یونہی نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گر انبار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے

ای پیپر دی نیشن