خالد بہزاد ہاشمی
شیخ الاسلام حضرت شیخ بہائوالدین زکریا سلسلہ سہروردیہ کے مشہور بزرگ اور ملتان کے روحانی تاجدار اور محافظ ہیں اور آپ کے دم سے ہی سلسلہ سہروردی کو ایک عالم میں عروج حاصل ہوا۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ شیر خواری کے زمانہ میں رمضان المبارک کے دوران ایک ماہ کیلئے دن کے وقت دودھ پینا چھوڑ دیتے اسکے علاوہ جب بھی آپ کے والد محترم مولانا وجیہہ الدین محمد غوث قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو آپ والدہ محترمہ کا دودھ پینا چھوڑ دیتے۔ گیارہ سال کی عمر میں یتیم ہوئے۔ آپ کے مشفق و مہربان چچا شیخ احمد غوث نے آپ کے سر پر دستار باندھی اور آبائو اجداد کی مسند پر بٹھایا آپ نے چار سو چوالیس باکمال اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ حضرت بہائوالدین زکریا کی مذہبی تعلیم برصغیر سے باہر ہوئی، انہوں نے خراسان، بیت اللہ اور بیت المقدس کے سفر بھی کئے۔ بخارا میں حصول تعلیم کیلئے آٹھ سال قیام کیا اور آپ کے اوصاف حمدیہ کے باعث لوگ آپ کو بہائوالدین فرشتہ کہہ کر پکارتے۔
پانچ سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور یہاں تریپن سال تک روضہ اقدسؐ پر خدمت انجام دینے والے عظیم محدث حضرت شیخ کمال الدین محمد یمنی سے حدیث شریف کا درس لیا اور روضہ اطہرؐ کے دائیں جانب ایک خاص مقام پر معتکف رہے۔ معروف صوفی شاعر حضرت مولانا عبدالرحمن جامی فرماتے تھے کہ صوفی شاعر حضرت مولانا عبدالرحمن جامی فرماتے تھے کہ مجھے اس جگہ بیٹھ کر عجیب روحانی لذت کا احساس ہوا اور میںنے بہت فیض حاصل کیا۔ بیت المقدس میں تمام انبیاء کرام کے مزارات پر حاضری دی آپ پانچ سال دمشق میں قیام پذیر رہے اسی دوران شہر سے باہر ایک غار میں بڑا اژدھا رہتا تھاجو وہاں سے گزرنے والوں کے قدموں کی آہٹ سنتے ہی باہر آتا اور اپنے شکار کو نگل لیتا بغداد کے لوگ بہت خوفزدہ تھے اس غار کو بند کرنے کی کوشش بھی کر چکے تھے جو اژدھے نے ناکام بنا دی ایک روز آپکا گزر وہاں سے ہوا تو اژدھا وہاں آپ کے قدموں کی آہٹ سنتے ہی باہر نکل کر پوری قوت سے آپ پر حملہ آور ہوا۔ اللہ کے اس برگزیدہ ولی نے بہت پرسکون طریقے سے آگے بڑھ کر اس موذی اژدھے پر اپنی چادر ڈالدی اور آگے بڑھ گئے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا بعدازاں وہاں سے گزرنے والوں نے دیکھا کہ وہاں ایک چادر موجود ہے اور اژدھا ہلاک ہو چکا ہے شہر میں شور مچ گیا کہ اژدھا ہلاک ہو گیا یہ تجسس برقرار تھا کہ آخر یہ کس بزرگ کی چادر ہے کئی روز کی تحقیق و جسجتو کے بعد عقدہ کھلا کہ حضرت شیخ بہائوالدین زکریا یہاں سے گزرے تھے اور یہ انکی چادر ہے جسکے بعد ہزاروں لوگ دیوانہ وار حضرت صاحب کی زیارت کیلئے انکے مکان کے گرد جمع ہو گئے۔ انہوں نے زندگی میں بہت سخت مجاہدے ریاضتیں کیں وہ ایک رکعت میں پورا قرآن پاک اور چار سپارے پڑھ لیتے تھے بعد ازاں دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص پڑھتے اور سلام پھیر لیتے۔ سوز عشق کا یہ عالم تھا کہ راتوں کی تنہائی میں اتنا روتے کے آپکے رخسار مبارک زخمی ہو جاتے۔ حضرت شیخ بہائوالدین زکریا اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت عالیہ میں محض سترہ یوم رہے اور اس مختصر مدت میں مرشد سے وہ فیوض و برکات حاصل کیں جو دیگر مرید سترہ سال میں حاصل نہ کر سکے تھے جس پر وہ رشک و حسد میں مبتلا ہو گئے اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی نے انہیںاپنا زیب تن خرقہ، مصلی اور حضرت علیؓ سے پہنچنے والا خرقہ عنایت فرمایا۔
حضرت شیخ بہائوالدین زکریا اور بابا فرید الدین مسعود گنج شکر خالہ زاد بھائی ہیں اور دونوں میں خونی نسبت کے علاوہ روحانی تعلق بہت مضبوط و مستحکم تھا دونوں میں ملاقات اور خط و کتابت بھی رہتی کئی سفر بھی ساتھ کئے۔ دونوں ایک دوسرے کی بے حد عزت کرتے تھے۔ حضرت بہائو الدین زکریا حضرت بابا صاحب کے بڑے خلیفہ اور راقم الحروف کے جد امجد حضرت جمال الدین ہانسوی کی عظمت و فضیلت کے باعث ان کے بہت معترف اور قدر دان تھے جبکہ حضرت جمال الدین ہانسوی کا شعری ذوق اور ادیبانہ مزاج انہیں بے حد پسند تھا انہوں نے حضرت بابا صاحب سے فرمائش کی تھی کہ میرے سب خلیفہ لے لو مگر جمال مجھے دے دو جس کا جواب حضرت بابا صاحب نے یہ دیا تھا کہ معاوضہ مال میں ہوا کرتا ہے جمال دینے کی چیز نہیں۔ دونوں خالہ زاد بھائیوں میں روحانی تعلق اس قدر مضبوط تھا کہ جس وقت حضرت بہائوالدین زکریا کا وصال ہوا تو اجودھن میں حضرت بابا صاحب کو بذریعہ کشف اسکا علم ہو گیا اور آپ دیر بعد ہوش آنے پر حضرت بابا صاحب نے مریدوں کو حضرت بہائوالدین زکریا کی رحلت کے بارے میں بتایا اور اجودھن میں اپنے مریدوں کیساتھ آپکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ ایک مرتبہ حضرت بابا صاحب حضرت بہائو الدین زکریا کو خط لکھ رہے تھے تو القاب پر آکر آپکا قلم مبارک رک گیا، سوچ میں پڑ گئے انہیں کس لقب سے مخاطب کریں اس لمحے انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا تو وہاں روشن حروف میں واضح طور پر ’’شیخ الاسلام‘‘ لکھا نظر آیا اور حضرت بابا صاحب انہیں ہمیشہ اسی لقب سے یاد فرمایا کرتے۔
’’فوائد الفواد‘‘ میں درج ہے کہ اجودھن (پاکپتن شریف) کے ایک موسیقار عبداللہ نے ملتان جانے کا ارادہ کیا۔ وہ حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود الدین گنج شکر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دشوار گزار سفر سے بخیر و خوبی واپسی کی دعا کی درخواست کی تو اجودھن کے اس عظیم درویش نے فرمایا کہ انکے روحانی تصرف کی حدیں صرف دریائے راوی کے کناروں تک ہیں اس سے پرے بہائوالدین زکریا کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے بھی والی ملتان ناصر الدین قباچہ کو واضح طور پر فرمایا تھا کہ یہ مقام (ملتان) حضرت شیخ بہائوالدین زکریا کے سپرد کیا گیا ہے اور ہمیشہ انکی دعائوں کے سائے میں رہے گا۔ حضرت محبوب الٰہی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بزرگ سے سنا ہے شیخ الاسلام حضرت شیخ بہائو الدین زکریا کے جسم مبارک اور لباس پر کسی شخص نے عمر بھر مکھی کو بیٹھے نہیں دیکھا اور یہ بات خود حضرت شیخ بہائو الدین زکریا نے بھی فرمائی تھی کہ ولی کی شناخت یہ ہے کہ اسکے جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی۔
ملتان پر منگولوں کے حملہ کے وقت سلسلہ چشتیہ کے دوسرے بڑے آفتاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی (مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر) حضرت سید جلال الدین تبریزی اور حضرت شیخ بہائو الدین زکریا تینوں یکجا تھے اس دور سعید کا زکر کرتے ہوئے حضرت بابا صاحب فرمایا کرتے کہ وہ بھی عجیب سعادتوں اور برکتوں کا زمانہ تھا جب یہ تینوں بزرگ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے اور نوافل میں پورا قرآن مجید ختم کرتے تھے آپکا دستر خوان ہمیشہ بہت وسیع تھا آستانے پر سینکڑوں مشائخ اور ہزاروں فقراء دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھاتے، انہیں اپنے دستر خوان پر انواہا اور اقسام کے کھانے کھاتا دیکھ کر محافظ ملتان کا دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا، کیونکہ کسی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا اللہ تبارک تعالیٰ کو بہت پسند اور اس کے بہت درجات ہیں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر فرماتے ہیں کہ ملتان میں قائم کردہ آپکی درسگاہ سے ستر ہزار طالبان سلوک و معرفت نے فیض حاصل کیا۔ آپ کا شمار اپنے دور کے خوشحال اور متمول ترین افراد میں ہوتا تھا انہوں نے ترکے میں مال وزر اور بڑی جائیداد چھوڑی آپ کے دور کے کئی دیگر درویش آپ کی آسودہ اور خوشحال زندگی اورامیرانہ شان سے حسد کرتے اور دولت کو سانپ سے تشبیہ دیتے یہی بات جب ایک بزرگ شیخ حمیدالدین نے کہی تو آپ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا کہ ان کی درویشی اس قدر حسن و جمال نہیں رکھتی کہ اسے نظر بد کا اندیشہ ہو لیکن ہماری درویشی کو وہ جمال حاصل ہے کہ اگر اسکے چہرے پر سیاہی کا تل نہ لگائیں تو نظر لگ جانا لازمی ہے یہ ہمت بھی حضرت شیخ بہائوالدین زکریا کو حاصل تھی کہ وہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لیکر چلے اور دنیا کے حرص و لالچ نے انکی درویشی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور یہ بہت بڑی آزمائش تھی جس میں تاحیات سرخرور رہے محل نما مکان میں قیام اور سیم و زر کے انبار دے کر انہیں سخت آزمائش سے گزارا گیا۔ ملتان شہر میں اناج کے ذخائر ختم ہوئے تو گورنر ملتان نے حضرت شیخ بہائو الدین زکریا سے مخلوق خدا کو غلے کی فراہمی کی درخواست کی تو آپ نے اپنے غلہ کے گوداموں کے دروازے کھول دیئے اور بڑی مقدار میں غلہ اہلیان ملتان کیلئے بھجوا دیا جب یہ اناج گورنر کے سامنے پہنچا تو اسے غلہ کے ڈھیروں سے سونے کے سکوں سے بھرا ایک بہت بڑا برتن بھی ملا گورنر جو ایماندار شخص تھا اس نے وہ سونے کے سکوں کا برتن واپس بھجوا دیا کہ حضرت شیخ صاحب نے صرف غلہ بھجوانے کی اجازت دی ہے اس پر حضرت شیخ بہائو الدین زکریا کا جواب بھی سن لیجئے! ’’انہیں بتا دو کہ زکریا ان سونے کے سکوں کے متعلق جانتا تھا میں نے یہ سکے جان بوجھ کر غلے کے ساتھ بھجوائے اگر کسی کو کچھ دیتے ہو تو دریا دلی کے ساتھ دو‘‘
حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ آپ حجرے میں یاد خدا میں مصروف تھے کہ ایک بزرگ دروازے پر تشریف لائے اور ایک سر بمہر لفافہ آپکے صاجزادے حضرت شیخ صدر الدین عارف کو دیا کہ یہ خط اپنے والد حضرت شیخ بہائوالدین زکریا کو پہنچا دو خط لیتے ہی حضرت شیخ صدر الدین کو بھی اندازہ ہو گیا کہ انکے والد محترم کے وصال کا لمحہ قریب آگیا، انہوں نے وہ خط اپنے والد کو پہنچا یا جسے پڑھتے ہی وہ اللہ تعالی کی رحمت میں چلے گئے اور آواز بلند ہوئی کہ ترجمہ (حبیب، حبیب سے مل گیا)انکے صاجزادے دروازے پر واپس آئے تو وہ اجنبی شخص غائب ہو گیا۔