موجودہ بحرانی صورتحال کے پیش نظر مختلف قائدین کے بیانا ت ٹکراو¿ کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے ہیں اپنے اپنے نقطہ نظر کی حما یت میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں بڑے بڑے جلسے اور دھرنے منعقد کر کے عوام کی حمایت کا تاثر دینے کی سنجیدہ کو ششوں میں کروڑوں روپے خر چ کر رہی ہیں۔ میری نصف صدی سے زیادہ کی یاداشت کے مطا بق پاکستان کے تقربیاً ہر بڑے شہر میں ماسوائے برسر اقتدار حکو متی پارٹی کے اپوزیشن کی دیگر تمام پارٹیاں اپنی اپنی مختلف اور مشترکہ شکایتوں اور گزشتہ انتخابات میں بے ضابطگیوں کے خلاف احتجاجاً چھوٹے اور بڑے اجتماعات میں مصروف ہیں۔ ان میں تحریک انصاف سب سے زیادہ نمایاں ہے اور اُس نے 30نومبرکا دن اپنے ایک فیصلہ کُن احتجاجی جلسہ کی صورت میں اسلام آباد کے اندر ریڈ زون میں منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ اگرچہ پُرامن احتجاج کی اجازت ہو گی لیکن کسی کو قانون ہاتھوں میں نہیں لینے دینگے۔ دوسری بڑی احتجاجی پارٹی ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک کے نام سے سیاست میں اپنا کردار ادا کر نے کیلئے میدان میں آ چکی ہے اگرچہ طاہرالقادری پر الزام ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کوئی خفیہ مُک مکا کر چکے ہیں جس کی بناءپر اُن کا حکومت کوئی خطرہ محسوس نہیں کر رہی۔
دوسری طرف حکو مت مرکز اور صوبہ پنجاب میں مطمئن اور پُر اعتماد نظر آتی ہے چنا نچہ وزیراعظم نواز شریف نے آئندہ انتخابات 2018 میں منعقد کروانے کا چند روز پہلے اعلان کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ حکو مت مخا لف احتجاجی جلسوں اور دھرنوں سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہیں لیکن جنو بی ایشیا میں خطہ کی سکیورٹی صورتحال کے بارے میں اس قدر پریشانی پائی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں دہشت گردی کے ابھر تے ہوئے خطرات کے پیش نظر مغربی طا قتیں اور خصوصاً امریکہ پریشان ہے چنا نچہ امریکہ نے افغانستان سے موجودہ سال کے آخر تک اپنی اور نیٹو کی افواج واپس بلا نے کی بجائے اُن کو 2015 کے آخر تک ایک نیا مشن دیکر افغانستان میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے عہد نامہ کے مطابق امریکہ اور نیٹو فورسز کا کردار افغانستان میں 31 دسمبر 2014کو ختم ہو جاتا ہے اور اسکے بعد صرف 9800 امریکن فو جی افغان افواج کی ٹریننگ اور بچے کچھے طالبان یا القاعدہ کے دہشت گردی کیخلاف افغان فورسز کو سہولیات مہیا کر نے کے ذمہ دار تھے Logistic اور انتظام و انصرام کیلئے چند ہزار دیگر Non-Combatant کی بھی افغانستان میں قیا م کی اجا زت دی گئی تھی لیکن اب گزشتہ جمعرات کو صدر اوباماءکی طرف سے جاری کردہ نئے احکامات کی بنا پر افغانستان میں امریکن افواج کو 2015کے آخر تک وہاں اپنا مشن جاری رکھنے کیلئے ضروری کارروائیاں کرنے کا آرڈر دیا گیا ہے۔ اسکی ایک وجہ عراق اور شام میں ISIS یعنی داعش کی اُن ممالک میں امریکہ کے نزدیک خطر ناک کارروائیاں ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے چند روز پہلے افغان پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت امریکی فو جوں کو 2015کے آخر تک فوجی کارروائیوں کیلئے افغانستان میں قیام کی اجازت دی گئی ہے جبکہ افغانستان کے سابق صدر حا مد کرزئی اسکے خلاف تھے یہ ایک ایسا نیا افغانستان اور امریکہ کے درمیان عہد نامہ ہے جس سے پورے خطے کے سکیورٹی ماحو ل میں ایک بہت بڑی تبدیلی ظہور پذیر ہوئی ہے اور اس بنا ءپر خطہ کے دیگر ممالک جن میں پاکستان خا ص طور پر قا بل ذکر ہے اس نئے امریکن افغانستان معاہدہ سے اثر انداز ہوا ہے اور اس معاہدہ کی وجہ سے پاکستان کو اپنی سکیورٹی کے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نپٹنے کیلئے نہ صر ف ان دو ممالک بلکہ خطہ کے تمام ہمسایہ ممالک اور خا ص طور پر ہندوستان کیساتھ اپنے دفاعی اور سکیورٹی معاملات پر نظر ثانی کرنا ہو گی چنانچہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ گزشتہ ہفتے پاکستان کا ہنگامی دورہ کر نا پڑا اور اس سلسلہ میں افغان صدر چکلالہ ائرپورٹ پر اترنے کے فورا بعد GHQ پہنچے جہاں انہوں نے سکیورٹی معاملا ت پر پاکستان آرمی کے چیف جنرل راحیل شریف اور اُنکے اعلیٰ فو جی عہدداروں نے پورے خطے اور خصوصاً پاکستان افغانستان کے باہمی سکیورٹی معاملا ت پر امریکی فوج کی نئی Strategyکا مفصل جائزہ لیا۔ اس کے فوراً بعد جنرل راحیل شریف سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان آرمی اور افواج ِ امریکہ یعنی پینٹا گون اور حکومت امریکہ یعنی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ایوان ِ نمائند گان میں کانگریس کے نمائندوں سے ضروری Coordination کیلئے امریکہ تشریف لے گئے۔ پاکستان کی اندرونی و بیرونی سکیورٹی میں مثال کے طور پر مسئلہ کشمیر کا ایک کلیدی فیکٹر ہے اور جب تک اس مسئلہ کا کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطا بق حل تلا ش نہیں کیا جاتا اُس وقت تک جنوبی ایشیاءمیں مستقل امن کا قیام ناممکن ہے چنانچہ صدر اوباما عنقریب بھار ت کے دورہ پر تشریف لا رہے ہیںاور ہم امید رکھتے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے علاوہ صدر اوباما مسئلہ کشمیر کو حل کر نے کا اپنا پرانا وعدہ بھی یاد کر تے ہوئے اسے پورا کریں گے۔