پاکستان زرعی ملک ہونے کے ناطے ایک اہم حیثیت رکھتا ہے اور زراعت کا ملکی GDP میں 26 فیصد سے زائد کا حصہ ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے زراعت کے سلسلہ میں پالیسیاں بے راہروی کا شکار ہیں اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ گندم کی تجارت کے سلسلہ میں ہم دنیا سے کٹتے جا رہے ہیں اور الگ تھلگ نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں حقائق کو مدِنظر رکھنا ہوگا اور وزارتِ خوراک و زراعت کے فصلوں سے متعلق ونگ کو از سر نو زندہ کرنا ہوگا۔2013-14 ءکی فصل کے آنے کے بعد کسی کو یہ اندازہ نہ ہوا کہ یہ فصل ہماری ضرورت سے کم از کم 20 لاکھ ٹن زیادہ ہے۔ اگر یہ اندازہ لگا لیا جاتا اور زیادہ خریدنے والے صوبہ پنجاب اور سندھ و پاسکو گندم کو کوالٹی کے اعتبار سے خریدتے۔ فصل کے حجم کا صحیح اندازہ لگاتے تو یقیناً ہم اس وقت گندم برآمد کر رہے ہوتے۔ مگر اس سلسلہ میں پالیسی ساز اداروں کا خواہ وہ وفاقی سطح پر ہوں یا صوبوں کی سطح پر کسی نے صورت حال کا صحیح ادراک نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک میں ماہ نومبر کے اختتام پر 80 لاکھ ٹن سے زائد گندم موجود ہے جبکہ سندھ کی فصل 15 مارچ تک آ جاتی ہے گویا اس وقت تک ہماری لاگت صرف 40 لاکھ ٹن تک متوقع ہے اور بقایا 40 لاکھ ٹن گندم آئندہ فصل کے آنے سے پہلے ملک میں موجود ہوگی۔ تفصیل دیکھی جائے تو پنجاب کے پاس 37 لاکھ ٹن، سندھ کے پاس 12 لاکھ ٹن KPK کے پاس دو لاکھ ٹن پاسکو کے پاس 17 لاکھ ٹن جبکہ ملک کے پرائیویٹ سیکٹر میں 10 لاکھ ٹن سے زائد گندم موجود ہے۔ پنجاب حکومت نے تقریباً 20 دن قبل سرکاری گندم کے اجراءکا اعلان کیا جو کہ 1330 روپے فی من میں دی جا رہی ہے مگر اجراءزور نہیں پکڑ سکا جس کی وجہ سے ملک میں فاضل گندم ہے اور دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جب ادارے صحیح کام نہ کر رہے ہوں تو ہر مافیا اپنے مفادات کے تحت اداروں کو استعمال کرتا ہے جیسا کہ اتنی فاضل گندم کے باوجود امپورٹ مافیا نے گندم کی امپورٹ شروع کر دی اور روسی ریاستوں سے سستی اور گھٹیا گندم خرید کر ملک بھر میں اپنی گندم کے اجراءپر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ فلور ملنگ سیکٹر میں اپوزیشن گروپ نے اس پر احتجاج کیا اور وزیراعظم و وزارت خزانہ سے رابطے کئے جس کے نتیجہ میں گندم کی درآمد پر 20 فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد کر دی گئی اور امپورٹ کو مشکل بنا دیا گیا مگر اس ناجائز امپورٹ کا اثر سب کے سامنے ہے پاکستان جیسا ملک جس میں ہر وقت ٹریڈ بیلنس کے منفی اثرات کی بات ہوتی ہے اس کے لئے چالیس لاکھ ٹن گندم کا فاضل ہونا ایک بہت بڑا مالی بوجھ بھی بن سکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس موقع پر ایک اور غلط لیکن اہم فیصلہ کر ڈالا اور وہ یہ کہ گندم کی نئی امدادی قیمت 1200 روپے فی من سے بڑھا کر 1300 روپے فی من کر دی ہے جس کا اطلاق نئی فصل سے ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ یہ ریٹ بڑھانے سے پہلے اپنے ہی ملک میں درآمد کی گئی گندم کے نرخوں کا جائزہ لے لیا جاتا جو 235 ڈالر سے 256 ڈالر فی ٹن کے حساب سے درآمد ہوئی جبکہ ہماری نئی امدادی قیمت 325 ڈالر فی ٹن کی حد کو چھو گئی اس طرح پاکستان آئندہ برس بھی عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے زیر اثر رہے گا اور یہاں درآمد کرنے والے پھر کوشش کریں گے کہ اپنی مہنگی گندم کے مقابلہ پر سستی گندم لائیں جس سے ملک کی زرعی اقتصادی صورت حال کا دھچکا لگے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ امدادی قیمت 1200 ہی رہنے دی جاتی اور کسانوں کی ضروریات کا خیال انہیں سبسڈی فراہم کر کے کیا جاتا مگر اب آئندہ فصل بھرپور ہو گی مگر اس کو خریدنے والے بشمول سرکاری ادارے لیت و لعل سے کام لیں گے۔ پنجاب حکومت کی بھی 20 لاکھ ٹن گندم بچ جانے کے چانسز روشن ہیں اسے یہ اندازہ لگانا چاہیے کہ گندم ایشو کر کے فائدہ ہے یا اس کو رکھ کر فائدہ ہوگا۔ اس وقت ویسے بھی اپوزیشن کے مظاہروں اور دھرنوں کی سیاست ہو رہی ہے۔ اس موقع پر پٹرول، ڈیزل اور سوئی گیس کے نرخوں میں کمی جہاں حکومت کو جگہ مہیا کر رہی ہے وہاں اگر پنجاب حکومت گندم کے اجرائی نرخوں کا از سرِ نو جائزہ لے اور ان میں عوام کی خاطر کمی کرے تو اس کے گندم کے فاضل سٹاکس بھی نکلیں گے عوام کو آٹا اس سے بھی سستا ملے گا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ مالی سال کے لئے گندم کی خریداری کے لئے Fiscal Space اور Storage Space دونوںموجود ہوں گی جو بہرحال کسان کے لئے 1300 کے ریٹ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اگر گندم کے اجراءکی یہی صورت حال رہی تو پنجاب میں بچی ہوئی گندم نہ صرف اس کی اپنی اکانومی (Economy) بلکہ مجموعی زرعی صورتحال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب ہمیشہ مثبت فیصلوں کے ذریعے معاملات کو صحیح راستہ پر ڈال لینے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں مگر یہ مسئلہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو اٹھارویں ترمیم کے نتیجہ میں سامنے آ رہا ہے اسے فوری دیکھنے کی ضرورت ہے۔