وزیرِاعظم کا”امن کا خواب؟“

Nov 28, 2014

اثر چوہان

حضرت اوج اکبر آبادی نے دو دشمنوں کو مُصافحہ کرتے ہُوئے دیکھا تو کہا کہ

”کِینہ دِلوں میں صاف عیاں تھا ¾ دمِ مُصاف
تیغیں تھِیں بے نیام تو خنجر تھے بے غلاف“
کھٹمنڈو میں ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس میں جب تمام سربراہانِ مملکت جمع تھے اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہُوئے رسمی کلمات کا تبادلہ کررہے تھے تو وزیرِاعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم شرِی نریندر مودی نے بھی ایک دوسرے سے مصافحہ کِیا اور رسمی کلمات کا تبادلہ بھی لیکن دونوں ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے دِکھائی دیئے۔ 26 مئی کو حلفِ وفاداری کی تقریب میں شرکت کے لئے دِلّی بھی گئے۔ میزبان کے جذبات کا احترام کرتے ہُوئے مسئلہ کشمیر ۔ ”ذرّہ بھر“ بھی ذِکر نہیں کِیا۔وزیر ِاعظم نواز شریف نے وزیرِ اعظم مودی کی ماتا جی کے لئے سفید ساڑھی کا تحفہ دِیا اور آدابِ میزبانی بجا لاتے ہُوئے مودی جی نے جناب نواز شریف کی والدہ¿ محترمہ کو شال بھجوائی لیکن یہ ”کشمیری شال“ نہیں تھی کہ کہیں وزیرِاعظم پاکستان کو مسئلہ کشمیر یاد آ جائے۔
سارک سربراہی کانفرنس میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم دونوں ملکوں میں تجارت اور دونوں طرف کے عوام میں دوستی اور محبت بڑھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ تصویریں کِھنچواتے ہیں اور اپنے اپنے وطن جا کر اپنے بیانات کی وضاحت کر کے اپنے لوگوں کو خوش کر دیتے ہیں۔ 2009 ءمیں کھٹمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہی کانفرنس میں وزیر ِاعظم پاکستان سیّد یوسف رضا گیلانی اور بھارتی وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن بڑی محبت اور گرم جوشی سے مِلے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنی تقریر میں گیلانی صاحب کا”من موہنے“ کی کوشش میں کہا کہ ” گیلانی جی کے ایک پُوروج“ (بزرگ) نے امرتسر میں ہمارے ” ہرمندر“ (Golden temple) کا سنگِ بنیاد رکھا تھا“۔ سیّد یوسف گیلانی نے مسکراتے اور سر ہلاتے ہُوئے داد وصول کی حالانکہ (Golden Temple) کا سنگِ بنیاد رکھنے والے حضرت مِیاں میر لاہوری نسباً فاروقی تھے گیلانی نہیں۔ یہ سفارت کاری بھی خُوب ہوتی ہے؟۔ در اصل ”سفارت کاری “ اور ”ریا کاری “ بے شک سو تیلی ہی سہی لیکن آپس میں بہنیں ہیں۔ اِن کے چکروں میں مسئلہ کشمیر کی ہر دَور میں دُرگت بنتی ہے۔
26 نومبر کو سارک سربراہی کانفرنس کے موقع پر وزیر ِاعظم نریندر مودی نے 6 سال پہلے کے ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہُوئے کہا کہ ”آج دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کا دِن ہے۔ ممبئی حملے دہشت گردوں کی وحشت ناک کارروائی تھی لیکن پاکستان کی طرف سے اُن کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا عمل سُست ہے“۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا کہ تنازعات سے پاک جنوبی ایشیا میرا خواب ہے“۔ لیکن انہوں نے پاکستان اور بھارت میں تنازعات مسئلہ کشمیر ¾ سیاچِن اور بھارت کی آبی جارحیت کا تذکرہ نہیں کِیا۔ سر توڑ کوشش کے باوجود مودی جی کا دِل موم نہیں کر سکے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دَور کے وزیرِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جوشِ خطابت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے قبضہ سے چھڑانے کے لئے اعلان کِیا تھا کہ ”ہم (یعنی پاکستان کے سارے لوگ ) کشمیریوں کی آزادی کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے“۔ لیکن سویِلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ¾ صدر اور وزیرِاعظم کی حیثیت سے جنابِ بھٹو کو ایک ہزار سال تک حکومت کرنے کا موقع نہیں مِلا۔بقول جناب فیض احمد فیض
”اِک فرصتِ گُناہ مِلی ¾ وہ بھی چاردِن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے“
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی ”شہادت“ کو کیش کر ا کے دوبار وزارتِ عظمیٰ حاصل کی لیکن مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کا حصول اُن کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ جناب آصف علی زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی ۔”خود کلامی“۔ اور میڈیا سے کلام کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ” کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر کو 5 سال کے لئے منجمد کر دیں؟“۔ جنابِ زرداری پہلے صدرِ پاکستان تھے کہ جنہوں نے اِس طرح کی خواہش کی اور پُوری بھی ہو گئی۔ کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمن نے بھی جنابِ زرداری کی اِس خواہش کو پُورا کرنے میں اُن سے مکمل تعاون کِیا۔ مولانا فضل اُلرحمن وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ جتنی بار بھی بھارت کے دورہ پر گئے ¾ اپنے اور اپنے بزرگوں کے منبع¿ عِلم و عرفان داراُلعلوم دیو بند کی تقریبات میں شرکت کرنے کے لئے گئے۔
قائدِاعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دِیا تھا ¾ اِس لحاظ سے مسلم لیگ کی صدارت کی کُرسی پر رونق افروز ¾ وزیر اِعظم نواز شریف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدگی کی توجہ کی جاتی ہے لیکن 11 مئی 2013 ءکے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد جنابِ نواز شریف نے عوام خاص طور پرپاکستان کے نظریاتی لوگوں کو بے حد مایوس کِیا ¾ جب کہا کہ ” عوام نے مسلم لیگ ن کو بھارت سے دوستی اور تجارت کے لئے ووٹ دیئے ہیں“۔ سارک کانفرنس میں بھی وزیرِ پاکستان نے بھارت سمیت تمام سارک ممالک کو تجارت کا حجم بڑھانے اور نرم شرائط والا ویزا نظام قائم کرنے کی تلقین کی۔ شِری نریندر مودی نے بھی ایسا ہی کِیا۔ پھر پاکستان کی وزارتِ خارجہ ¾ وزارتِ امورِ کشمیر اور مولانا فضل اُلرحمن کی چیئر مین شپ میں چل رہی کشمیر کمیٹی پر ہر ماہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کا مقصد ؟۔ یہ بھی عجیب بات کہ ڈیڑھ سال بعد بھی جنابِ وزیرِ اعظم کو کوئی باقاعدہ وزیرِ خارجہ نہیں مِلا۔ یوں بھی مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز سال خوردہ ہو چُکے ہیں۔
اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ( ہماری شبانہ روز کی سفارت کاری کے باوجود ) ۔ نیو یارک میں شِری نریندر مودی نے وزیر ِاعظم نواز شریف سے ملاقات نہیں کی تھی۔ کھٹمنڈو میں بھی ایسا ہی ہُوا۔وزیرِاعظم نوازشریف اپنا دورہ¿ کھٹمنڈو مختصر کر کے وطن واپس آرہے ( آگئے) ہیں۔صدر اوبامہ نے بھی وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات نہیں کی تو وہ اپنادورہ¿ نیو یارک بھی مختصر کرکے وطن واپس آ گئے تھے ¾ صدر اوبامہ کے مجوزہ دورہ¿ بھارت سے بھی یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی نسبت بھارت کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایسی صورت میںمحض تجارت کا حجم بڑھانے سے تنازعات سے پاک جنوبی ایشیا میں قیام ِامن کا وزیرِ اعظم کا خواب کیسے پُورا ہوگا؟۔مِرزا غالب نے کہا تھا
”تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جوآنکھ کُھل گئی تو زیاں تھا نہ سُود تھا“
لیکن یہاں تو زیاں ہی زیاں ہے۔

مزیدخبریں