خدمت سے ”الخدمت“ تک

ایک شخص اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ اس کا سات آٹھ سال کا بچہ بار بار کمرے میں آ کر کبھی کسی چیز کو چھیڑتا تو کبھی کسی کو گرا دیتا۔ اس کی ان حرکتوں سے سبھی ڈسٹرب ہو رہے تھے۔ باپ نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا اور منع کیا لیکن وہ باز نہیں آیا۔ باپ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ کمرے کے ایک کونے میں دنیا کا نقشہ پڑا ہوا تھا اس نے اٹھایا اور پھاڑ کر اسے سینکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ بچے کو بلا کر کہا کہ جا¶ ان ٹکڑوں کو جوڑ کر لا¶ اور جب تک یہ نقشہ جڑ نہ جائے کمرے میں داخل نہیں ہونا۔ باپ اس وقت حیران و پریشان ہو گیا جب دس پندرہ منٹ کے بعد ہی بچہ کمرے میں جڑا ہوا نقشہ لے کر داخل ہوا۔ باپ نے تو سوچا تھا کہ یہ کئی دن اسی چکر میں پڑا رہے گا۔ باپ نے سوال کیا بیٹا یہ آپ نے اتنی جلدی کیسے جوڑ لیا؟ بچے نے کہا آپ نقشہ الٹ کر دیکھئے۔ جب باپ نے نقشہ الٹا تو اس پر ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ بچے نے جواب دیا”انسان کو جوڑا ہے دنیا اپنے آپ جڑ گئی“ یہ واقعہ مشہور دانشور‘ مصنف‘ ادیب اور شاعر امجد اسلام امجد نے الخدمت فا¶نڈیشن ملتان کے زیراہتمام ایک چیریٹی ڈنر کے موقع پر سنایا۔ ڈنر میں الخدمت فا¶نڈیشن پاکستان کے صدر میاں محمد شکور‘ شاکر حسین شاکر‘ خالد مسعود خاں‘ ڈاکٹر صفدر اقبال ہاشمی‘ ڈاکٹر ولی محمد مجاہد اور را¶ محمد ظفر کے علاوہ شہر کے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات موجود تھے۔یہ کوئی عام محفل یا صرف ڈنر نہیں تھا بلکہ ایک خواب جسے دیکھا گیا تھا اسے عملی جامہ پہنانے کی تقریب تھی۔ خدمت سے ”الخدمت“ تک ایک لمبا سفر ہے جس کا آغاز ۱۹۹۰ءمیں ہوا تھا۔ ۹۴ سالہ نعمت اﷲ خاں جو کہ تنظیم کے سرپرست اعلیٰ ہیں انہوں نے اپنی زندگی اس کام کیلئے وقف کی ہوئی ہے۔ خدمت کا یہ دائرہ آج محدود سے لامحدود ہو چکا ہے۔ قدرتی آفات سے بچا¶‘ صحت بشمول بلڈ بنک‘ ڈایاگناسٹک لیبارٹریز‘ ایمبولینس سروس‘ طلبہ کیلئے تعلیم‘ یونیفارم‘ کتابیں‘ وظائف‘ غریبوں کے لئے مکانوں کی تعمیر‘ صاف پانی کی فراہمی‘ بارانی علاقوں میں ہینڈ پمپ اور کنو¶ں کی کھدائی‘ شہروں میں فلٹریشن پلانٹ‘ رفاقت یتامیٰ پروگرام‘ بے سہارا بچوں کیلئے ”آغوش“ جیسے اقامتی اور تعلیمی ادارے‘ الخدمت روزگار پروگرام‘ رمضان شریف میں دانش اور عید پر تحائف یہ سب خدمت کے جذبے کے تحت ہی ہو رہا ہے۔ اس جذبے اور عشق و مستی میں ذات‘ مذہب اور ملک نہیں دیکھا جاتا یہی وجہ ہے کہ آج تھرپارکر میں ضلع مٹھی جو کہ ہندو اکثریت کاضلع ہے وہاں پانی کے لئے سینکڑوں کنو¶ں کی کھدائی مکمل ہو چکی ہے۔ پاکستان سے باہر افغانستان‘ سری لنکا‘ جاپان‘ برما‘ شام‘ فلسطین‘ انڈونیشیا‘ بوسنیا تک یہ خدمات جاری ہیں۔ بات پھر اس خواب سے شروع کرتا ہوں جو دیکھا گیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ ملتان میں ایک ہسپتال بنایا جائے جو سٹیٹ آف آرٹ کا نمونہ ہو۔ جہاں غریب اور مستحق مریضوں کا علاج مفت ہو سکے اور اہل ثروت افراد اپنا علاج سستا کروا سکیں۔ مقصد لوگوں کی جیبیں خالی کرنا نہ ہو۔ ملتان میں ناگ شاہ چوک کے قریب چھبیس کنال زمین پر ہسپتال کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہسپتال کیلئے یہ زمین ”چیریٹی آسٹریلیا انٹرنیشنل“ نے بطور عطیہ خرید کر دی ہے۔ چالیس پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے یہ ہسپتال مکمل ہو گا۔ پہلے مرحلے میں بستروں کی تعداد ایک سو ہو گی جو کہ بعد میں بڑھا کر تین سو تک کر دی جائے گی۔
جب نشتر ہسپتال بنا تھا تو اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان سردار عبدالرب نشتر نے ملتان‘ سرگودھا اور راولپنڈی کے کمشنروں کو بلا کر کہا تھا کہ جو ڈویژن حکومت کو تیس لاکھ روپے کا عطیہ دے گا اس ڈویژن کو ہسپتال دے دیا جائے گا۔ دو ڈویژنوں کے کمشنروں نے اگلی ملاقات میں معذوری ظاہر کر دی لیکن ملتان کے کمشنر نے تیس لاکھ نہیں چونتیس لاکھ کی پیش کش کر کے ہسپتال لے لیا جو کہ اس وقت ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ ملتان اور گرد و نواح کے عوام نے اس وقت بھی ایک ہسپتال کیلئے اپنی جیبیں خالی کر دی تھیں تو اب بھی عوام اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے یہ فرض ایک مرتبہ پھر سے ادا کرنے جا رہے ہیں۔ تقریب میں سوا کروڑ روپے سے زائد کے عطیات جمع ہوئے۔
رات گئے سامعین کی فرمائش پر امجد اسلام امجد اپنا کلام سناتے رہے۔اختتام پر انہوں نے اپنی یہ مختصر نظم سنائی۔
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
قرآن مجید کی سورة بقرہ کی آیت ۲۴۴ میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ”تم میں کون ہے جو اﷲ کو قرض حسنہ دے تاکہ اﷲ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اﷲ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے”
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن