خلیفہ الرسول کا طرز عمل

Nov 28, 2016

رضا الدین صدیقی

حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہء رسول منتخب ہوئے۔ اس وقت آپ محلہ سخ میں مقیم تھے۔ بیعت کے بعد آپ چھ ماہ تک وہیں قیام پذیر رہے۔ اکثر صبح پیدل مدینہ منورہ جاتے، کبھی گھوڑے پر بھی سوار ہو جاتے۔ انکے جسم پر ایک لنگی اور گیروے رنگ سے رنگی ہوئی ایک چادر ہوتی۔ عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آجاتے۔ انکا معمول تھا کہ شام کو اپنی بکریوں کا دودھ نکالتے تو اہل محلہ کی بکر یوں کا دودھ بھی دھو دیتے۔ جب آپکو خلافت تفویض ہوئی۔ تو ایک بچی نے کہا اب ہماری بکریوں کا دودھ کون نکال کر دیا کریگا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’میری عمر کی قسم یہ کام میں ہی سر انجام دونگا۔ مجھے امید ہے کہ خلافت کی ذمہ داری مجھے ان اخلاقِ کریمانہ سے نہیں روکے گی، جو پہلے سے مجھ میں ہیں۔‘‘ کبھی کبھی ازرہِ خوش طبعی، اس بچی سے پوچھتے: اے لڑکی! تم کیسا دودھ چاہتی ہو جھاگ والا یا بغیر جھاگ کے، کبھی وہ کہہ دیتی جھاگ والا کبھی کہہ دیتی بغیر جھاگ کے۔ آپ خوش دلی سے اس کا مطالبہ پورا کر دیتے۔
ایک دن وہ تجارت کی غرض سے بازار کی طرف نکلے، تو حضرت عمر نے کہا کہ اگر آپ تجارت میں مشغول ہو جائیں گے تو سلطنت کے امور کون انجام دیگا۔ اس پر آپ نے استفسار فرمایا: کہ پھر میری گزر اوقات کیسے ہو گی؟ یہ معاملہ شوریٰ کے سامنے پیش ہوا۔ شوریٰ نے ان کیلئے اتنا وظیفہ مقرر کر دیا جس سے انکا اور انکے اہل خانہ کا ایک دن کا گزارہ ہو جائے اور وہ اس وظیفہ سے حج و عمرہ بھی کر سکیں اور یہ روزینہء اتنا ہی تھا جتنا کہ ایک عام مہاجر خاندان کو بیت المال سے میسر آتا۔ ایک روایت کیمطابق آپ نے اپنے دورانیہ خلافت میں بیت المال سے کل آٹھ ہزار درھم وصول کئے۔ جب آپکی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا، ہمارے پاس مسلمانوں کے بیت المال میں سے جو کچھ ہے وہ واپس کر دو کیونکہ میں اس وقت اس مال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا اور میں آج تک بیت المال سے جتنا مال استعمال کر چکا ہوں۔ اسکے بدلے میں میں نے اپنی فلاں زمین بیت المال کے نام کر دی ہے۔
چنانچہ آپکے وصال کے بعد وہ زمین، ایک دودھ والی اونٹنی، تلواروں کو تیز کرنے والا غلام اور ایک چادر جس کی قیمت پانچ درھم تھی حضرت عمر کی خدمت میں پیش کی گئیں۔ آپ نے یہ دیکھا تو رونے لگے اور فرمایا: ابوبکر اپنے بعد میں آنیوالوں کو بڑی مشکل میں ڈال گئے ہیں۔ یعنی یہ طرز عمل کہ بغیر شدید ضرورت کے بیت المال سے کچھ وصول نہیں کیا اور جو کچھ حاصل کیا وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے واپس لوٹا گئے۔

مزیدخبریں