توسیع کی روایت دفن، کل خوش اسلوبی سے فوجی کمانڈ میں تبدیلی ہو گی
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا، دونوں کوفور سٹار جنرلز کے رینک پر ترقی دیدی گئی، وزارت دفاع کی طرف سے دونوں جرنیلوں کی ترقی اور نئے عہدے پر تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹر جنرل آف ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن تعینات تھے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر ہونے والے جنرل زبیر حیات کا تعلق آرٹلری سے ہے، وہ چیف آف جنرل سٹاف کے طورپر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔ دونوں جنرل 29 نومبر بروز منگل سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور اسی دن موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ریٹائر ہوں گے۔ فوجی کمان کی تبدیلی کی تقریب 29 نومبر کو صبح 10 بجے جی ایچ کیو میں ہو گی۔ جنرل راحیل تقریب کے مہمان خصوصی ہوں گے اور کمانڈ سٹک نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کریں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف سے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے انہیں نئی ذمہ داریوں اور ان کے تقرر کے بارے میں آگاہ کیا۔ نئے جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل زبیر حیات نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی۔ انہوں نے جنرل زبیر حیات کو نئے عہدے کے بارے میں بتایا اور مبارکباد دی۔ نامزد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور نامزد چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے اپنی نامزدگی پر نواز شریف کا شکریہ ادا کیا اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے یقین دہانی کرائی کہ ملکی دفاع کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ جنرل زبیر محمود حیات نے کہا کہ ملکی دفاع نا قابل تسخیر ہے وزیر اعظم نے امید کا اظہار کیا کہ دونوں جنرلز قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے اور ملک کی خدمت احسن طریقے سے جاری رکھیں گے۔ وزیر اعظم کو پانچ جنرلز کے نام دیئے گئے تھے۔ وزیر اعظم نے مشاورت کے ساتھ دانشمندی سے فیصلہ کرتے ہوئے بہترین کمانڈر کے جاں نشیں کے طور پر بہترین کمانڈر کا انتخاب کیا۔ اس سے مدت ملازمت میں توسیع کی قبیح روایت دفن ہو گئی۔ وزیراعظم کی جانب سے نئے چیف کی آخری دنوں میں تقرری سے جنرل راحیل شریف کو زیادہ سے زیادہ اپنی اتھارٹی استعمال کرنے کا موقع ملا۔
پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے 24 اکتوبر 1980ء کو پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ میں کمشن حاصل کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کینیڈا میں کینیڈین فورسز کمانڈ افیئر سٹاف کالج ٹورنٹو سے گریجویشن کی۔ انہوں نے امریکہ کی نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مانٹرے کیلیفورنیا سے تربیت حاصل کی۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے بھی تربیت حاصل کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کوئٹہ کے سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکنیک میں انسٹرکٹر رہے ہیں۔ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے کمانڈنٹ بھی رہے ہیں، راولپنڈی کی کور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں اور 16 بلوچ رجمنٹ کے کمانڈر بھی رہے ہیں۔ نئے آرمی چیف نے ایک انفنٹری بریگیڈ کی بھی کمان کی ہے۔ شمالی علاقوں کے بعض انٹری ڈویژن کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کانگو میں ایک امن دستہ کی بھی قیادت کی ہے۔ ستارہ امتیاز ملٹری بھی حاصل کرچکے ہیں۔
اگر جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کے سربراہ کے عہدہ پر ترقی نہ پاتے تو اگلے سال 8 اگست کو فوج سے ریٹائر ہو جاتے۔ جو دوسرے سینئر جرنیل اب ریٹائرمنٹ لے سکتے ہیں ان میں لیفٹیننٹ جنرل واجد حسین چیئرمین ہیوی انڈسٹری‘ لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان ڈائریکٹر جنرل جائنٹ سٹاف اور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے شامل ہیں۔ تاہم ریٹائرمنٹ لینا کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔
بی بی سی کے مطابق نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور انکے پیشرو جنرل راحیل شریف میں ذاتی اور پیشہ وارانہ لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں۔ وہ انہی کی طرح فوج کی تربیت اور مہارت میں اضافے کے ہر وقت خواہشمند رہتے ہیں۔ حال ہی میں مکمل ہونے والی فوجی مشقوں کو جنرل باجوہ ہی نے ڈیزائن کیا تھاجنرل قمر جاوید باجوہ کشمیر کے محاذ کا بھرپور تجربہ رکھتے ہیں، نادرن ایریا کی کمانڈ بطور میجر جنرل کرچکے ہیں اور دوسرے نمبر پر ٹین کور جو پاکستان کی سب سے ایکٹو کور ہے، اسکے کور کمانڈر رہ چکے ہیں، جسکی زیرنگرانی پورا کشمیر کا محاذ آتا ہے جس پر بھارت فائرنگ کرتا رہتا ہے اور ان حالات میں ٹین کور کی طرف سے ہمیشہ بھرپور جواب دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو انہیں اس جنگی صورتحال کا پوری طرح تجربہ ہے اور وہ حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم کی بہترین چوائس ہیں۔
بھارت نے ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری کو محاذ جنگ بنایا ہوا ہے، ادھر پاکستان کے اندر بھی فوج ضرب عضب کی صورت میں دہشتگردوں کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ نئے آرمی چیف کو دونوں محاذوں پر اپنی صلاحیتوں اور پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے قوم کی توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔ سرحدوں کے اوپر منڈلاتے خطرات کے بادل اسی صورت چھٹ سکتے ہیں جب ہم اندرونی سطح پر متحد اور مضبوط ہوں۔ اندرونی طور پر مضبوطی کیلئے دہشتگردوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ جن کے خلاف پاک فوج ضرب عضب آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اندرون اور بیرون سرحد، محاذوں پر دشمن کے مقابلے کیلئے عسکری اور سیاسی قیادت ہم خیال اور ہمقدم ہے۔ جس کی بدولت کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ کل قوم عسکری کمانڈ میں خوش اسلوبی سے ہوتی ہوئی تبدیلی دیکھے گی۔ جنرل راحیل شریف نے جو اعلیٰ معیار اور روایات قائم کئے ان سے جنرل قمر جاوید باجوہ یقیناً آگاہ ہیں۔ وہ جنرل راحیل کے ساتھ مشاورت میں شامل رہے ہیں۔ وہ اپنے پیشرو کے قائم کردہ سٹینڈرز میں قوم کی توقعات کے مطابق اضافہ کرنے کی یقیناً کوشش کرینگے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا قوم کیلئے حوصلہ افزاء ہے کہ پالیسی کا تسلسل بر قرار رہے گا۔ جنرل راحیل نے جو مثال قائم کی اسے جاری رکھیں گے۔ ضرب عضب کے آغاز کے بعد دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی۔ عوام کو فوج کی نئی قیادت پر پہلے کی طرح اعتماد ہے۔ مشرقی سرحدوں پر تو جہ برقرار رہے گی۔ جنرل راحیل شریف کی پالیسیاں کامیاب رہیں۔ نئے آرمی چیف روایات کو آگے بڑھائیں گے۔ بدقسمتی سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیا گیا اسے سوشل میڈیا میں زیادہ ہی اچھالا گیا۔ اس پراپیگنڈہ کیلئے کچھ سیاسی شخصیات کو بھی استعمال کیا گیا۔ پراپیگنڈہ کرنے والوں کیخلاف سائبر کرائم بل کے تحت مقدمات چلانے کی ضرورت ہے۔
نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات قوم کی توقعات کے عین مطابق پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کی سکیورٹی کو مزید بہتر اور مضبوط کریں گے جو آج بھی دنیا میں بہترین ہے۔ خدا کرے کہ دونوں جرنیلوں کا انتخاب ملک و قوم کیلئے بہترین ثابت ہو۔ قوم دونوں جرنیلوں کو خوش آمدید اور جنرل راحیل شریف کو نیک تمنائوں اورخواہشات کے ساتھ خدا حافظ کہتی ہے۔
جنرل راحیل بہترین کمانڈر، وزیراعظم نے انکے بہترین جاں نشیں کا انتخاب کیا
Nov 28, 2016