یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارتی فوج کے سابق سربراہ ’’ جنرل بکرم سنگھ ‘‘ نے افواج پاکستان کے نئے سپہ سالار کو انتہائی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ ہندی اخبارات ’’ نو بھارت ٹائمز ‘‘ اور ’’ امر اجالا ‘‘ کے مطابق بھارتی فوج کے سابق چیف ’’ جنرل بکرم سنگھ ‘‘ نے کہا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ا نتہائی پروفیشنل سپاہی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ’’ میں یہ بات اپنے ذاتی تجربے کی بنا کر کہہ رہا ہوں کہ نئے پاک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے انتہائی پروفیشنل اور ماہر جرنیل سے بھارت کو انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’’ کانگو پیس مشن ‘‘ کے دوران ’’ جنرل باجوہ ‘‘ بریگیڈ یئر تھے جبکہ میں خود ( بکرم سنگھ) میجر جنرل تھا ۔ کانگو میں امن مشن کے دوران جنرل باجوہ کی کارکردگی اتنی غیر معمولی تھی کہ میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘‘۔ یاد رہے کہ جنرل بکرم سنگھ 31 مئی 2012 سے 31 جولائی 2014 تک بھارتی فوج کے سربراہ رہے۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف یا وا گوئی کرتے ہوئے دریائے سندھ کے حوالے سے کہا ہے کہ جو پانی انڈیا کا ہے اسے پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا ۔ مودی نے بھارتی صوبے پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے کاشت کاروں کو وافر مقدر میں پانی فراہم کرنے کے لیے ہر قدم اٹھائے گی۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے کہا کہ' دریائے سندھ میں بہنے والے پانی پر ہمارے کسانوں کا حق ہے۔ مودی سرکار کے بقول انھوں نے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے جو اس پہلو کا جائزہ لے رہی ہے کہ کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جو پانی پاکستان جاتا ہے اس کا کس طرح زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے پر انڈیا اور پاکستان نے 1960 میں دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت بیاس، راوی اور ستلج دریاؤں کے پانیوں پر انڈیا کا کنٹرول ہے جبکہ سندھ، چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کے اختیار میں دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ دریائے سندھ چین سے نکلتا ہے لیکن سندھ طاس معاہدے کے مطابق ہندوستان کو اس کا صرف 30 فیصد حصہ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
یہاں یہ امر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارتی پنجاب میں اسمبلی انتخابات سے قبل بظاہر صوبے کے کاشکاروں کو پیغام دیتے ہوئے مودی نے گوہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کے حصے کے دریائے سندھ کا ایک ایک قطرہ پاکستان جانے سے روک دیں گے اور وہ یہ پانی مقبوضہ کشمیر ، پنجاب اور دوسرے خطوں کے کاشت کاروں کو دیں گے۔ انھوں نے ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں پر طنز کستے ہوئے کہا: بھارت کا پانی پاکستان جاتا رہا اور دہلی میں حکومتیں آتی رہیں، جاتی رہیں، سوتی رہیں اور بھارتی کاشت کار پانی کے لیے روتے رہے۔' یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی سربراہی میں1960 میں طے پایا تھا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ماضی کی جنگوں اور لڑائیوں کے درمیان بھی یہ معاہدہ قائم رہا اور کبھی اس کے بارے میں سوال نہیں اٹھا۔ مگر بھارت کی حالیہ اشتعال انگیزی پر مبنی روش کے تناظر میں نریندر مودی نے ایک بار پھر اس معاہدے پر نظر ثانی کی بات کی ہے ۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی ستمبر میں نریندر مودی نے پانی کی تقسیم پر پاکستان کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے انتہائی مکروہ روش کا مظاہرہ کیا تھا ۔
بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق نریندر مودی نے اس حوالے سے منعقدہ اجلاس کے بعد کہا تھا: 'خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے ۔' انھوں نے اپنی دانست میں پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے اس معاہدے کے سلسلے میں بھارت کوئی نہ کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے مابین 1960 میں طے پایا تھا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر سے گزرنے والے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا ۔ اس پر پاکستان نے کہا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اتفاق رائے سے طے پایا تھا اور کوئی ایک ملک یکطرفہ طور پر اپنے آپ کو اس معاہدے سے علیحدہ نہیں کر سکتا۔ یہاں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ چند روز قبل سابق بھارتی وزیر اعظم اورمعروف ماہر اقتصادیات ’’ ڈاکٹر منموہن سنگھ ‘‘ نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا ( راجیہ سبھا ) میں اپنے خطاب کے دوران نوٹ بندی کے حالیہ فیصلے کو سخت الفاظ میں ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’’ مودی سرکار کے نوٹ بندی کے احمقانہ فیصلے کے نتیجے میں بھارتی معیشت ڈگمگا کر رہ گئی ہے اور جی ڈی پی میں دو فیصد سے زیادہ کمی یقینی ہے جس کے منفی اثرات بھارت کو ہر شعبے میں بری طرح متاثر کریں گے ‘‘ ۔ علاوہ ازیں بھارت کے ہندی اخبار ’’ امر اجالا ‘‘ کے مطابق ’’ انڈین ایکسپریس ‘‘ نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ نوٹ بندی کو 19 دن گزر چکے ہیں اور اس فیصلے کے نتیجے میں 14.5 لاکھ کروڑ روپے منسوخ ہوئے جبکہ حکومت صرف 1.5 لاکھ کروڑ روپے کے نئے نوٹ چھاپ چکی ہے جس کے نتیجے میں بھارت کو مزید برے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں ۔ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ بھارتی حکمران ہوش کے ناخن لیں گے وگرنہ ان کے برے دن آنے طے ہے ۔