سپنے ٹوٹنے لگیں یا اُمیدوں کو زنگ لگنا شروع ہو جائے تو تلخیاں جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی، بات ایک ہی ہے۔ جب یہ کہتے ہیں کہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارا ہے، تو قوم کی اٹھان یا اڑان فرد ہی پر منحصر ہے۔ جب ایک شخص اس قدر اہم ہے تو لیڈر کی اہمیت کیا ہو گی؟
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شب تنہائی کا
ذرا غور کیجئے! (اگر ممکن ہے) آرمی چیف کی تبدیلی کس قدر احسن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف جمہوریت پسندوں ہی کے لئے نہیں سبھی افراد کے لئے پہلے ہی کی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ ہیرو قرار پائے۔ لگ بھگ پورے ملک نے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ امیدوں کی اس وابستگی سے ملک و قوم کا بھی بھلا ہے اور جنرل باجوہ کے لئے بھی نیک نامی اورحب الوطنی کے مزید دریچے کھلیں گے۔ بہرحال یہ بات تو صداقت عامہ ہے کہ جرنیلوں اور عدالت عظمیٰ کے ججوں سے حب الوطنی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف سے لاکھوں سیاسی اختلافات کے باوجود ان کی حب الوطنی پر شک کبھی ممکن نہیں رہا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کا گہرا گھائو بھی کھایا، پھر پاکستان سے دوستی کی بنیاد کے سبب پچھلے دنوں کتنے ہی لوگ بنگلہ دیش میں سولیوں پر جھوم گئے اور زخم نے ایک دفعہ پھر تازگی کا احساس دلایا بلکہ وہ زخم نہیں‘ اب کے بار تو ناسور لگا۔ یقینا اس گہرے زخم کے بعد پاکستان کی ہر طرح کی قیادت نے سبق بھی سیکھا۔ ماضی سے سبق سیکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان ان چند ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا جو جوہری توانائی کے حامل ہیں۔ یوں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک سبھی سویلین حکمرانوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا اور بھٹو کے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے خواب کو ضیاء الحق، مرزا اسلم بیگ، آصف نواز، عبدالوحید کاکڑ، جہانگیر کرامت اور پرویز مشرف تک سبھی جرنیلوں نے بھی شرمندۂ تعبیر کر دیا۔ یہ ایک CHAIN REACTION تھا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ قیادت جاگنے کا ثبوت فراہم کرے تو کوئی نہ کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان میسر آہی جایا کرتا ہے۔ ایسے میں بگاڑ کی جگہ بنائو لے لیتا ہے۔
اب ذرا اس پر بھی غور کیجئے! اگر اپوزیشن بیدار ہو تو کوئی ذوالفقار علی بھٹو 1973ء کے آئین کا فقیدالمثال تحفہ بھی دے دیا کرتا ہے۔ شراب پر پابندی، قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ، جمہوریت کا سرخرو ہونا، جمعہ کی چھٹی ہونا وغیرہ وغیرہ کیا کچھ قوم کا مقدر نہیں بن جاتا۔ پھر اس پر بھی غور کہ آصف علی زرداری جیسے صدر پاکستان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کس قدر بھی سرگرم عمل ہو، اُس کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ بھی جس قدر بے پناہ ہو، دہشت گرد بھی کتنے ہی متحرک ہوں ایسی پیچیدگیوں کے باوجود بھی وہ 17ویں ترمیم سا فریضہ سرانجام دے، جس کی بدولت (2)58 بی کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے لئے تیسری تیسری دفعہ بالترتیب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننا ممکن ہو تو یہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے بیک وقت بیدار مغز ہونے کا ثبوت ہے کہ نہیں؟ جی! یہ ہے عمدہ زنجیری عمل!
یہ تو تھا مختصر سا جائزہ اُس حُسن ظن کا جو آنکھوں میں امیدوں کے چراغ فروزاں رکھتا ہے۔ اس حسن ظن کی ایک عملی صورت یہ بھی ہے کہ آج سی پیک میں شمولیت کی خواہش روس بھی رکھتا ہے، اور کئی دیگر مسلم ممالک بھی۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل و قریب میں کئی ممالک اس سے استفادہ کریں۔ خرابیٔ حالات کے باوجود چین کا پاکستان پر مکمل بھروسہ ہے۔ اس بھروسے کو صرف میاں نواز شریف ہی نے تقویت نہیں بخشی بلکہ متذکرہ سبھی صدور اور وزرائے اعظم کے علاوہ مذکورہ جرنیلوں نے بھی اس دوستی کا بھرم رکھا۔ اور یہ ایک زنجیری عمل کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے بوئے ہوئے بیج آج شجر سایہ دار اور ثمربار بننے کے درپے ہیں۔ جی! یہ عمدگی ہے زنجیری عمل کی۔ اب بات، کچھ اور امیدوں کے سنگ سنگ ایک اور تبدیلی اور توسیع کی۔ وہ تبدیلی اور توسیع جو نہ تو آرمی چیف کی تبدیلی سی پیچیدہ اور مشکل ہے اور نہ کسی حکومتی تبدیلی کا سا خدشہ اور مرحلہ ہے۔ بلکہ اس وقت یہ تبدیلی اور توسیع تو محض مکھن سے بال نکالنے کے مترادف ہے۔ اور اگر یہ بال نکال لیا جاتا ہے تو مکھن کس قدر لذیذ، صحت بخش اور انمول ہو سکتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے تبدیلی تو توسیع ہی شرط ہے۔ اس تبدیلی کے اشارے ماضی قریب میں متعدد دفعہ ملے۔ 10 مئی 2016ء کو بھی یہ تبدیلی قریب قریب حتمی تھی مگر اسے عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ پھر 22 نومبر 2016ء کو بھی اشارے یقینی صورتحال کے پیرہن میں ملبوس تھے مگر تاحال کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ سیانے کہتے ہیں کہ تغیر ارتقاء کی عمدگی کو چار چاند لگانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہاں، یہ تو ہم بھی کہتے ہیں (اگرچہ ہم سیانے نہیں) ٹھیک ہے اسحق ڈار، احسن اقبال، انجینئر خرم دستگیر، خواجہ سعد رفیق اور چوہدری نثار کارکردگی کے حوالے سے خاصے حوصلہ افزا دکھائی دیتے ہیں۔ خواجہ آصف سے آپ کا محض ’’الفت‘‘ کا رشتہ ہے۔ ٹھیک ہے، ان میں تبدیلی نہ لائیں۔ لیکن 10 مئی اور 22 نومبر 2016ء کی سوچ بچار کو اب منظرعام پر ہی نہیں سرعام بھی لے آئیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلے! ہم نہیں کہتے، میاں صاحب! آپ خود ہی کوئی دوربین اور خوردبین اٹھا کر وفاقی وزیر پیر صدرالدین شاہ راشدی (اوورسیز اور انسانی حقوق) اور وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی (صنعت و پیداوار) پر رکھئے اور کارکردگی کا عالم دیکھ لیجئے! اسی طرح کسی سیاسی سٹیتھو سکوپ سے ریاض حسین پیرزادہ (بین الصوبائی ربط)، سکندر حیات بوسن (نیشنل فوڈ سکیورٹی اور ریسرچ) اور ممکن ہو تو برجیس طاہر (امور کشمیر و گلگت بلتستان) اور رانا تنویر (دفاعی پیداوار) کی کارکردگی کی دھڑکن اور کوالٹی سے بھی جانچ لیجئے۔ اسی طرح وزرائے مملکت میں سے عثمان ابراہیم (محکمہ و کارکردگی اللہ جانے)، سائرہ افضل تارڑ (ہیلتھ سروسز) اور جام کمال (پٹرولیم و قدرتی ذرائع) پر بھی ذرا غور ہو جائے تو ملک و ملت سے محبت کا ایک اور اہم فریضہ ادا ہو جائے گا۔ اسی طرح کچھ پارلیمانی سیکرٹریز اور قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین حضرات کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ ازراہِ کرم اگر ان وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت پر نظر کرم ہو جائے تو قوم ہی نہیں حکومت پر بھی احسان ہو گا۔ باخبر ذرائع تو کہتے ہیں جناب دانیال اور جناب طلال کا رسک بھی آپ نہیں لینا چاہتے باوجود اس کے کہ ان کی ’’پانامائی کارکردگی‘‘ بہت اعلیٰ ہے اور ماروی میمن کی چھٹی بھی قدر ہی کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ مانا کہ سابق صدر رفیق تارڑ صاحب کا اہل و عیال کرپشن اور چالاکی ہوشیاری سے دور ہے لیکن کارکردگی اور محکمانہ فراست سے بھی تو کوسوں دور ہیں!! وزارتوں اور تبدیلیوں کے علاوہ تجربات کے حوالے سے ن لیگ کے چمن میں علاج تنگئی دامن تو ہے۔ آخر عوام کی آنکھوں میں تیرتی امیدوں کو کب جلا بخشیں گے؟ کب صحت اور تعلیم کے محکموں کی یتیمی اور مسکینی تمت بالخیر کی دہلیز پر پہنچے گی؟ کب متعدد لاء میکرز کو 17ویں ترمیم کی سمجھ آئے گی؟ کب جواں ہمت اور فہم و فراست سے مالا مال اور لوٹاازم سے ناآشنا ممبران قومی اسمبلی کی صلاحیتوں سے قوم اور آپ استفادہ کریں گے؟ کب ’’سٹیٹس کو‘‘ کی جگہ پر حقیقی ٹیلنٹ کو موقع ملے گا؟ ملک و قوم کب تک عاقبت نااندیشوں کے سبب قیادت کے بجائے بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہوں گے؟ کیا واقعی ایوان زیریں اور ایوانِ بالا میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی وزیر خارجہ ملنا ممکن نہیں؟ کیا کشمیر کمیٹی کے لئے مولانا فضل الرحمن (اپنے سیاق و اسباق کے تناظر میں) پورے اترتے ہیں؟ جس طرح سابق آرمی چیف نے کہا ’’آنے والے دن بہت اچھے ہوں گے، ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا‘‘ لیڈر بھی ملک و قوم کے مفاد کے لئے سوچیں، کسی تغیر کا، کسی مثبت سوچ کا، حرص و ہوس کو خیرباد کہنے کا، بنائو والی تبدیلی کا اور جمہوری عمل کا۔ کیا کوئی جمہوری و سیاسی قیادت اور وزیر بھی ایسی روایت کو جلا بخشنے کا عزم رکھتا ہے؟ اب تو امیدوں کو زنگ آلود اور سپنوں کو ٹوٹنے سے بچا لیں اور کابینہ میں بھی تبدیلی کا بھی ایک احسن تجربہ کر لیں۔ تبدیلیاں مثبت ہوں تو یہ بھی انقلاب ہوا کرتا ہے!!!