خدا جانے شاہ جی کس دنیا میں رہتے ہیں یا پھر غالب کی طرح ؎
’’یک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے‘‘
والی کیفیت ہو گی ان کی۔ جناب کو کون بتائے کہ بلدیاتی ادارے آپ کے صوبے میں آپ کی پارٹی کے دور حکومت میں اگر بحال ہو ہی گئے ہیں تو خدارا پہلے انہیں فعال تو کریں، لولی لنگڑی جمہوریت کی طرح چلنے تو دیں، اختیارات کی بات بعد میں پوری کریں۔ فی الحال تو سندھ حکومت کو وفاق کی طرف سے بھرپور رعایتی پیکج مل رہے ہیں، بجلی کے واجبات کے ضمن میں 5 ارب روپے جو واجب الادا تھے، تخت لاہور نے یک جنبش قلم معاف کر دئیے ہیں۔ کیا اب بلاول جی احسان فراموشی کرتے ہوئے وفاقی حکومت کیخلاف جارحانہ اقدامات کر سکیں گے۔ وفاق پر تابڑ توڑ حملے کرنے والے یہ کاغذی پہلوان اپنے صوبہ کے ذمہ واجب الادا رقم ہی ادا نہیں کرسکے۔ یہاں تو گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے گیس بھی سندھ کے لئے ایک تہائی سستی کر دی گئی ہے جو خود تختِ لاہور کے اپنے صوبہ کے لئے نہیں ہے۔ کیا اب بھی سندھ والوں کو تختِ لاہور سے گِلہ ہو گا۔ خود اپنا کیا حال ہے سندھ کی بے خبر سسّی سے یہ کون پوچھے، جہاں وزیر اعلیٰ ہائوس میں منعقدہ بلدیاتی سیمینار میں پیش کردہ سندھ کے نقشے میں سے کراچی ہی غائب تھا کیا ایسی باخبر حکومت اور وزیر اعلیٰ کسی اور صوبے میں ہو نگے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
پاکستانی ٹیم کے غبارے سے ہَوا نکال دی ہے : کریگ میکملن !
ارے بھائی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے غبارے میں ہَوا تھی ہی کب کہ آپ نے نکال دی۔ یہ بیچاری ٹیم قسمت، وقت، قوم کی دعائوں کے طفیل اور اتفاقات کی بدولت کبھی کبھی اچانک اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہے اور اس کے بعد پھر نہ زندوں میں شمار ہوتی ہے نہ مُردوں میں۔ کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ بے اختیار ان کو دیکھ کر ’’پیش کر غافل، عمل گر کوئی دفتر میں ہے‘‘ والا مصرع زبان سے پھسل پڑتا ہے۔ جب تک پیر تسمہ پا اور منظور نظر انتظامیہ، سلیکٹروں اور کوچوں سے جان نہیں چھوٹے گی بیچاری ٹیم کا غبارہ ہَوا سے خالی ہی رہے گا۔
گزشتہ روز بھی نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستانی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر رونا آ رہا ہے۔ کیویز کی پہلی اننگز کے 271 رنز کے جواب میں ہمارے شاہین 216 پر ڈھیر ہو گئے۔ یہ وہ ٹیم ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں انکے ناز نخرے الگ ہیں غیر ملکی دورے الگ۔ دوسری طرف باکسنگ کے میدان میں ایک اچھی خبر یہ ملی ہے کہ امریکہ میں ورلڈ سلور فلائی ویٹ ٹائٹل کے مقابلے میں پاکستان کے باکسر محمد وسیم نے اپنے ٹائٹل کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے فلپائن کے باکسر کو دھول چٹا دی۔ کوئی بتا سکتا ہے ہماری حکومتیں باکسنگ کے کھیل کے ساتھ کیا کرتی ہیں۔ ان کو کون سپانسر کرتا ہے اسکے باوجود ہمت مرداں مدد خدا کے تحت ہمارے باکسر اعلیٰ کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اس کامیابی پر پوری قوم انہیں مبارکباد پیش کرتی ہے ۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
فضل الرحمن صحت یاب، ہسپتال سے ڈسچارج، ڈاکٹروں کی طرف سے آرام کا مشورہ!
ان ڈاکٹروں کو کیا معلوم جنہوں نے ایسا مشورہ دیا ہے۔ بھلا کوچۂ سیاست میں آرام کہاں، یہاں تو کام کر کے ہی آرام ملتا ہے سکون ملتا ہے۔ اگر بستر پر دراز ہو گئے آرام طلب ہو گئے تو کون پوچھے گا کون منہ لگائے گا۔ ویسے بہتر تو یہی ہے کہ ابھی چند روز پڑے ہیں مولانا آرام ہی کر لیں تو بہتر ہے۔ 27 دسمبر کو بلاول جی نے اپنے 4 نکات کو مجیب الرحمن والے 6 نکات کی طرح بنانے کی دھمکی دی ہے کہ حکومت پورے کر دے ورنہ سڑکوں پر دما دم مست قلندر ہوگا۔
ایسے حالات میں مولانا سے زیادہ قابل ذکر اور قابل احترام کون ہو سکتا ہے ثالثی کرانے کیلئے۔ باالفاظ دیگر مُک مکا کرانے کے لئے کیونکہ جب بھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) میں تُو تُو مَیں مَیں ہوتی ہے مولانا فوراً مذاکرات کا ڈول ڈال کر صلح کرا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانامہ کیس بھی ہے، خان صاحب نے بے شک کہا کہ وہ عدالتی فیصلہ تسلیم کریں گے مگر حالات بتا رہے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرتے جو کہتے ہیں، یوں خان صاحب کی طرف سے من پسند فیصلہ نہ آنے پر پھر میدان گرم ہو سکتا ہے تو حکومت کو مولانا سے زیادہ سرگرم اتحادی اور کہاں دستیاب ہو گا جو بیک وقت سیاسی اور مذہبی میدانوں میں حکومت کو بھرپور تحفظ فراہم کر سکتا ہو۔ اس سلسلے میں ریحام کی طرف سے بھیجے گئے مولانا کو پھول اور پھل کا تحفہ بھی انکی طرف سے اس موقع پر بھرپور حمایت کا ثبوت ہے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
کیوبا کے فیدل کاسترو کی تدفین 4 دسمبر کو ہو گی!
سوشلسٹ کہہ لیں یا کمیونسٹ دنیا کا ہی نہیں حریت پسند تحریکوں کا چی گویرا کے بعد یہ دوسرا سب سے زیادہ دلپسند رہنما تھا جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کے پہلو میں رہتے ہوئے اسکی ناک میں دم کئے رکھا۔ امریکہ جس نے ہزاروں میل دور واقع ویت نام، سوویت یونین، افغانستان اور عرب ممالک ہی نہیں افریقہ تک اپنی دہشت کے قصے رقم کئے۔ امریکہ صرف 90 میل کی دوری پر آباد کیوبا کے اس کامریڈ کی مونچھیں نیچی نہ کر سکا۔ دنیا بھر میں آزادی کی کی تحریکوں اور سامراج کیخلاف لڑنیوالے انقلابیوں کیلئے کاسترو کی موت ایک بڑا نقصان ہے کیونکہ ایسے دل گردے والے، ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے اب کہاں ملتے ہیں۔ 635 دھماکے، زہر، گولیاں اور قتل کی سازشیں جسے مار نہ سکیں وہ فرشتۂ اجل کے سامنے بے بس ہو گیا۔ کہتے ہیں جب اسکی محبوبہ ماریتا اسے زہریلی گولیاں کھلا کر نہ مار سکی تو کاسترو نے خود اسے پستول دے کر کہا چلائو گولی، تو وہ کئی منٹ پستول تھام کر کھڑی رہی اور بالآخر روتے ہوئے کہنے لگی میں تمہیں نہیں مار سکتی۔ تو کاسترو نے کہا تھا مجھے کوئی نہیں مار سکتا کیونکہ میں پستول خالی رکھتا ہوں تاکہ کوئی بے گناہ میرے ہاتھوں سے نہ مرے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…