دونااہل وزیراعظم؟؟؟

Nov 28, 2017

نوازشریف کے خلاف فیصلے کو عوام کے بعد پارلیمنٹ نے بھی نامنظورکردیا۔ نوازشریف کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کا بل قومی اسمبلی نے بھار ی اکثریت سے نامنظور کردیا۔ مخالفین کا خیال تھا کہ ن لیگ کے بہت سے ارکان نوازشریف کی حمایت نہیں کررہے ۔ عمران خان توپہلی مرتبہ آئین بھی سمجھاتے رہے ۔ فرمارہے تھے ایک آئین یہ کہتا ہے کہ اگر نمبرپورے نہ ہوں تو حکومت گرجاتی ہے۔ نوازشریف کے ساتھ تو اب بندے نہیں ہیں اور ایک آئین کہتا ہے کہ 90 دن کے اندر الیکشن کروانے پڑیں گے۔لیکن بندے تو 98 کے مقابلے میں 163 آگئے جن کو عمران خان اب ڈوب مرنے کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ اگر وہ اپنے لیڈر سے بے وفائی کرتے اور پارٹی سے غداری کرتے توعمران خان کی نظرمیں عظیم ہوجاتے لیکن انہوں نے یہ موقع گنوادیا۔شیخ رشید دعویٰ کرتے ہیں کہ نوازشریف اسمبلی کی رکنیت سے انکی درخواست پر نااہل ہوئے ہیں ۔شایددرست کہتے ہیں اس وقت نہ دھرنا کام آیا تھا نہ جلسے اور عوام ہر ضمنی الیکشن میں نوازشریف کو جتو ا رہے تھے تو عدالتوں سے نااہل کروانا پڑا۔ پارٹی کی صدارت سے پارلیمنٹ نہیںنکال سکی تو اب پھر عدالت کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ پارٹی صدارت یا عہدے بارے آئین بڑا واضح ہے۔ آرٹیکل نمبر(2)17 جوکہ بنیادی حقوق کا آرٹیکل ہے کہتا ہے کہ ’’ہرایسے شہری کوجوکہ حکومت پاکستان کاملازم نہ ہو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بنائے یا پارٹی کا ممبر بنے ‘‘ ۔ یعنی شرط صرف یہ ہے کہ پاکستان کا شہری ہو اورنااہلی صرف حکومت کا ملازم ہونا ہے۔ آئین کچھ بھی کہتا رہے امکان غالب یہی ہے کہ عدالت نوازشریف کو پارٹی صدار ت کے لئے بھی نااہل قرار دے دے گی کیونکہ شیخ رشید نے اسکی درخواست کی ہے اور موجودہ حالات میں شیخ رشید کی درخواست رد نہیں کی جاسکتی اس کے لئے یہ ہوسکتا ہے نوازشریف کا پارٹی صدر بننا آئین کی روح کے خلاف قرار پائے یا ہوسکتا ہے اخلاقی طور پر ناجائز قرار پائے۔ اہم بات یہ ہے کہ شیخ رشید کی اگلی درخواست کیا ہوگی۔ گیلپ اور پلس پول کے نتائج نے تو معاملات کو بہت گھمبیر بنادیا ہے ۔ پاکستان کے عوام بھی عجیب ہیں نوازشریف کو سپریم کورٹ نے نااہل کردیا لیکن وہ اب بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں وہ اب بھی کہتے ہیں شہبازشریف کی حکومت سب سے زیادہ کامیاب ہے وہ اب بھی کہتے ہیں کہ اگرآج بھی الیکشن ہوجائیں تو ن لیگ کوو وٹ ملیں گے ۔ ان حالات میں شیخ رشید پر ایک اور بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے ۔ الیکشن سے تو عمران خان کو وزیراعظم بنایا نہیں جاسکتا پھر سپریم کورٹ سے درخواست کرنی پڑے گی۔ لیکن اس درخواست کے وقت شیخ رشید ایک زبردست مخمصے کا شکار ہوجائیں گے ۔ وہ یہ کہ عمران کو وزیر اعظم بنانے کی درخواست کریں یا خود کو یعنی شیخ رشید کو ۔لیکن وہ جلد ہی فیصلہ کرلیں گے اور اپنے لئے درخواست کریں گے اور عمران خان کو کہہ دیں گے کہ آ پ نے تو خودہی مجھے شاہد خاقان عباسی کے خلاف PTI کا وزیرا عظم کا امیدوار بنایا تھا لہٰذا یہ میرا ہی حق ہے۔ سپریم کورٹ اس درخواست پر کیا فیصلہ کرے گی کہا نہیں جاسکتا۔ ویسے سپریم کورٹ تو کچھ بھی کرسکتی ہے وہ اسمبلی توڑنے کو جائز قرار دے سکتی ہے۔وہ مشرف کو آئین میں3 سال تک ترمیم کرنے کا حق دے سکتی ہے وہ مشرف کو وردی میں صدر کا الیکشن لڑنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ تو یہ بھی کوئی بڑا معاملہ نہیں۔ جو کچھ بھی ہونا چاہئے ملک اور عوام کے مفاد میں ہونا چاہئے۔

نوازشریف آجکل جن سیاسی حالات سے گزررہے ہیں موجودہ دور کی ایک بڑی مسلمان شخصیت اس سے ملتے جلتے حالات سے گزر چکی ہے۔ طیب اردگان آجکل ترکی کے صدر ہیں ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ عوام نے انکے خلاف آرمی کی مسلح بغاوت کو بھی کچل دیا۔ طیب اردگان سیاست میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ 1988 میں ان پر ایک نظم پڑھنے کے بعد نسلی منافرت پھیلانے کا الزام لگا اور 10 ماہ کی سزا سنادی گئی جسکی وجہ سے وہ الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کے اہل نہ رہے۔ طیب اردگان نے ان حالات میں جب کہ وہ پارلیمنٹ کا الیکشن نہ لڑ سکتے تھے ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا نام Justice & Democratic Party رکھا گیا۔ یہ پارٹی 2001 میں بنی اور طیب اردگان نے استنبول کے میئر کی حیثیت سے اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر ترکی میں ہونے والے نومبر2002 کے الیکشن میں اپنی پارٹی کے تقریباً دو تہائی ارکان کو کامیاب کروالیا۔ یاد رہے طیب اردگان کے الیکشن لڑنے پر پابندی تھی اور وہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب نہ ہوسکے تھے۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی عبداللہ گل کو ترکی کاوزیراعظم بنوا کر حکومت حاصل کرلی اورپھر پارلیمنٹ نے آئین میںترمیم کرکے طیب اردگان کو الیکشن لڑنے کا اہل بنادیا اور وہ ایک ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوکر ترکی کے وزیراعظم بن گئے۔ انکی کارکردگی اتنی شانداررہی کہ وہ دوبارہ بھی وزیراعظم منتخب ہوئے اوراسوقت ترکی کے صدر ہیں۔یادرہے انکو 1998میںپارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔نوازشریف کہتے ہیں کہ ان کے خلاف فیصلہ کہیں اور ہوچکا ہے عدالتیں صرف فیصلے سنا رہی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف جہاں سمجھ رہے ہیں بڑے فیصلے اس سے بھی اوپر کہیں ہوتے ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ ہوتا ہوانظر آنا چاہئے ۔ ابھی تک جو کچھ ہورہا ہے ۔ شاید انصاف ہی ہورہا ہو لیکن ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ حدیبیہ ملز کا کیس کھولنے کے لئے NABنے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے ۔اس معاملہ میں جس طرح کاروائی ہورہی ہے اسے دیکھ کر مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔میںنے پانچویں جماعت ساہیوال (منٹگمری ) سے پاس کی تھی۔ ہمارے کلاس ٹیچر شام کو کلاس کے چار پانچ طلبا کو گھر بلا کر خصوصی توجہ سے پڑھاتے ۔ انکو وظیفے کے امتحان کے لئے تیار کیا جاتا جوکہ دراصل پورے ڈسٹرکٹ کے پرائمری سکول کا مقابلہ ہوتا تھا۔ سردیوںکے دن تھے۔ ماسٹر ضیا الحق صاحب اپنے پلنگ میں رضائی اوڑھ کر نیم دراز ہوتے۔ ساتھ ہی حقہ کے کش لیتے اور چلم پر ہاتھ بھی سینکتے رہتے۔ سامنے کرسیوں پرہم چار پانچ طالب علم بیٹھ جاتے ۔ ماسٹر صاحب کا بیٹا اعجاز الحق بھی ہمارا کلا س فیلو تھا۔وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ جاتا ۔ ماسٹر صاحب کچھ دیر پڑھاتے اور پھر ہم سے باری باری سوال کرتے۔ ماسٹر صاحب کا بیٹا اعجاز بہت زیادہ ذہین نہ تھا اور اکثر غلطی کرجاتا ۔ اسکی غلطی پر ماسٹر صاحب غصہ میں آجاتے۔ اعجازسے کہتے میرا (یعنی ماسٹر صاحب کا) جوتا اٹھا کر مجھے دو۔ وہ بیچار ہ جوتا اٹھا کر دیتا اور ماسٹر صاحب کھینچ کر اسے دے مارتے۔ اگلی غلطی تک غصہ ٹھنڈا رہتا اور سبق کا سلسلہ چلتا رہتا۔ حدیبیہ کا کیس 2014 میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے بند کردیا گیا۔ NABکے حکام نے ہائی کورٹ کے خلاف اپیل میں نہ جانے کا فیصلہ کیااور اپیل کا وقت گزر گیا۔ پانامہ مقدمہ کے دوران JIT اس مقدمہ کو بھی کھود کر نکال لائی ۔ سپریم کورٹ نے NABکے چیئرمین سے پوچھا کہ آپ نے سپریم کورٹ میں اپیئل کیوں نہ کی۔انکا جواب تھا کہNAB کے ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پر اپیل نہ کی جائے لہٰذا اپیل نہیںکی گئی۔ سپریم کورٹ نے ان سے پوچھا اب آپ اپیل کریں گے۔ انہوں نے کہا نہیں اب بھی نہیں کروں گا۔ ان سے کہا گیاآپ کو بھگتنا پڑے گا ۔ اسکے بعدNABکو حکم دیا گیا۔کہ وہ سپریم کورٹ سے درخواست کرے کہ وقت گزرنے کے باوجود(ٹائم بار ہونے ) اس کیس میں اپیل کی اجازت دی جائے۔ ہم اجازت دے دینگے پھر آپ اپیل کریں اورپھر ہم اس پر فیصلہ کرینگے۔ ہے نہ ماسٹر ضیاء الحق جیسا کچھ کچھ۔

مزیدخبریں