قارئین ہم سب جانتے ہیں 25 نومبر، ہر سال خواتین پر تشدد کیلئے عالمی دن منانے کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دن اور 8 مارچ خواتین کے حقوق کی بات کرنے کا دن دو ایام ایسے ایام ہیں جو سال بھر میں مظلوم خواتین کو الاٹ کر دیئے گئے ہیں کہ ان میں خوب رو دھو لو، اپنے پامال حقوق کی بات کر لو، اس کے بعد پورا سال تمہیں چُپ رہنا ہو گا جبکہ آج تک کسی معاشرے میں مردانہ حقوق کیلئے کوئی دن نہیں منایا گیا اس لئے کہ وہ خود ہی حاکم ہے، خود ہی اپنے حقوق طے کرتا ہے اور حاصل کر لیتا ہے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ایسے نام نہاد دِن منانا قطعی طور پر ایک بے اجر اور بے ثمر کوشش ہی نہیں بلکہ عورت صدیوں سے جس مظلومیت کا عملاً شکار ہے یہ اُس کے پرانے زخموں پر ہر سال نیا نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اگر خواتین پر تشدد کا عالمی دن اُن پر تشدد ہی کی طرح گزرتا ہے تو پھر منانے کا کیا فائدہ؟ قارئین سوچنا یہ ہے کہ ایسے دن منانے سے کیا محض اُس دن کی اہمیت واضح ہوتی ہے یا اُن حادثات و واقعات کا تدارک بھی ہو جاتا ہے، اُس کی بنیاد بھی ختم ہو جاتی ہے یا ہو سکتی ہے جو اُس دن سے مربوط و منسلک ہوتے ہیں؟ لمحہ موجود میں تمام تر سائنسی ارتقاء کے باوجود انسانی حقوق جس طرح پامال ہیں ان کا تصور ہی محال ہے جبکہ خواتین پر جس قدر ہر سطح پر تشدد کیا جاتا ہے اس حوالے سے تو اس یوم کا نام ’’خواتین پر عالمی تشدد‘‘ ہونا چاہیے دُنیابھر میں گھریلو سطح پر تشدد سے لے کر جنگوں میں اسے بطور ہتھیار، کبھی بطور ڈھال اور کبھی بطور استحصال استعمال کیا جاتا ہے وہ ان پر تشدد کی بدترین قسم ہے اور یہ بات آج کی نہیں اس سے پہلے بھی ازل سے لے کر اب تک خواتین کے ساتھ مردانہ جابر معاشرہ جو امتیازی سلوک روا رکھتا ہے یا رکھ رہا ہے یا ان پر تشدد کی اور تذلیل کیلئے جو جو اقسام وضع کر رہا ہے اگر ہم اُن کو نظرانداز بھی کر دیں تو بھی یہ ایک عام اور عام فہم سی بات ہے کہ تشدد کسی بھی انسان کی طرف سے کسی بھی انسان پر ہو اُس کا جواز یقیناً کوئی جرم ہوتا ہے اور تو اور پولیس جیسا محکمہ بھی جس کے ظلم و ستم کی دہشت و وحشت سے عوام سے لے کر خواص تک تھرتھر کانپتے ہیں ہمارے خیال میں وہ بھی جھوٹ یا سچ کسی بھی قسم کا جرم سامنے آنے پر ہی اپنا عمل اور ردعمل شروع کرتا ہے لیکن صد افسوس کہ عورت وہ واحد مخلوق ہے جس پر تشدد کا جواز بجائے خود عورت کا محض عورت ہونے کا جُرم ہے۔
ہر روز ملک بھر کے اخبارات ایسے اعداد و شمار سے بھرے ہوتے ہیں جن میں تشدد کیلئے عورت کا محض عورت ہونا ثابت ہوتا ہے اور کافی ہوتا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے دو تین سالوں میں باتصویر کہانیوں کے مطابق ابتک تقریباً ایک سو عورتوں کو آگ لگا کر دردناک موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کاروکاری جیسی وحشت ناک خود ساختہ رسم کے تحت درجنوں بے قصور دوشیزاؤں کو ہلاک کیا گیا، گینگ ریپ کے نتیجے میں سینکڑوں خواتین کو جانورانہ انداز میں قتل کر دیا جاتا ہے، چولہا پھٹنے کے نام پر اور خُلع لینے کی خاطر عدالت میں آنے والی لاچار عورتوں کو برسرِ عام ذبح کرنے کے واقعات تو گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلنے جیسے کھیلوں کی طرح عام ہیں جبکہ دس یا نو سالہ کچی کلیوں جیسی بچیوں کو اِدھر اُدھر گلیوں میں کاٹ پھینکنے کی بات کسی شمار قطار میں نہیں رکھی جاتی رہ گئیں نام نہاد عزت کی خاطر قتل ہو جانے والی خواتین یا وہ قتل جو اپنی نام نہاد عزت کو بچانے کی خاطر چُھپائے جاتے ہیں تو وہ زیادہ تر پرنٹ میڈیا پر جانے سے پہلے ہی ختم کر دیئے جاتے ہیں قارئین اگر ہم اس تمام قتل و غارت کا حساب کرنے بیٹھیں تو یہ یقین کرنے میں بہت زور لگانا پڑے گا کہ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں زیرِ حراست خواتین کی حتمی بے حُرمتی، گھر کی جائیداد گھر میں رکھنے کی خاطر بچی کی قرآن سے شادی، مُطلقہ عورتوں سے جہیز اور بچے چھین لینا، بیوی کے ہاتھوں طلاق کا کاغذ بیچنا، اُنکے چہروں پر تیزاب پھینک کر اندھا کر دینا جیسے جرائم روزمرہ کے طور پر رائج و جاری ہیں اور لطف یہ کہ اِن سُرخ مظالم میں سے اکثر کی کسی کو کان و کان خبر ہی نہیں ہوتی یا وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جو چیز روٹین میں آ جائے اس کی خبر نہیں بنتی بہرحال قارئین اب آئیے بات کریں اس تشدد اور زخموں کی بھی جن کی تصویر لینے کیلئے کسی موجد نے ابھی تک کوئی کیمرہ ایجاد نہیں کیا نہ ہی اُن کی پُراِسرار تعداد کو کسی شمار قطار میں رکھا جا سکتا ہے وہ ہیں عورتوں پر جذباتی، نفسیاتی، ذہنی اور رُوحانی تشدد کے گُھجے وار اور چرکے۔ اس کے باوجود آپ کو ہر عورت ہنستی ہوئی اور میک اَپ زدہ نظر آئے گی۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو شاید مرنے سے بہت عرصہ پہلے مر جائے زندگی کے نام پر موت سے سمجھوتہ صرف عورت ہی کر سکتی ہے۔ قارئین ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ مندرجہ بالا سب کچھ کرنے والے یہ لوگ کون ہیں؟ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ ان میں سے ہم نے آج تک کسی ایک بھی قاتل اور ظالم کی تصویر اخبار میں نہیں دیکھی سنگسار ہوتے ہوئے یا سرِ عام جسے آگ میں جھونکا جا رہا ہو؟ اس کا مطلب ہے مردانہ معاشرہ پہلے اُنہیں مدتوں تک بیان بازی، دلیل سازی اور زبان درازی کی مہلت دے کر شعلہ ریز مسئلے کو برف زدہ کرنے کا موقعہ مہیا کرتا ہے پھر رہا کرا دیتا ہے اندھا قانون مسلسل محوِ تماشا اور بے حِس و بے ضمیر معاشرہ ایک لمبی پُراِسرار چُپ میں مُبتلا رہتا ہے۔ ان حالات میں یہ سوچ آتی ہے کہ شاید انصاف اور قانون کے مذکر الفاظ محض مرد کے مفاد کیلئے ہیں اور ناانصافی کا مؤنث لفظ عورت کیلئے بچ گیا ہے۔ ذاتی طور پر ہمارے ذہن میں اس ساری خون آلود صورتحال کا ایک ہی حل موجود ہے کہ بہتر ہے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردینے والی رسم کو دوبارہ زندہ کیا جائے کیونکہ اگر ہم ذہنی طور پر نور نبوت کے طلوع ہونے سے پہلے والے کالے دور میں رہ سکتے ہیں تو کیا حرج ہے۔ جسمانی طور پر بھی اُن رسوم کو اپنا لیا جائے اس کا سب سے بڑا فائدہ خود عورت ہی کو پہنچے گا کیونکہ ایک نوزائیدہ بچہ کا گلہ گھونٹنے میں اسے محض چند لمحوں کی اذیت برداشت کرنی پڑے گی جبکہ تیس پینتیس سالہ زندہ شعور و احساس رکھنے والی بھرپور عورت کو مسام مسام جلنے، سسکنے، ایڑیاں رگڑنے اور خون و پیپ میں پھینکنے سے لے کر کوئلہ بن جانے تک تیس پینتیس دن لگتے ہیں دوسرا حل اسلامی شرعی سزاؤں کا نفاذ ہے جو کہ مغرب زدہ لوگوں کو پسند نہیں اگر ان سزاؤں پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو معاشرے میں خواتین کے علاوہ ہر مظلوم کو یقینی انصاف مل جائے گا۔
آخر میں کہنا یہ ہے کہ خدارا مرد حضرت اپنی بیویوں، بہنوں اور بچیوں کو بھی اپنی طرح کا انسان سمجھیں اور محض اپنے گھر کی عورتوں پر تشدد کا جواز پیدا کرنے کیلئے معاشرے کی بچیوں پر مظالم کو نظرانداز نہ کریں بلکہ انکے ساتھ زیادتیوں پر صدائے احتجاج بلند کریں، حکومتیں، عدالتیں، علماء اور باشعور طبقہ اپنی اپنی سطح پر میدانِ عمل میں اترے اور عورتوں کو ہر سطح پر مردانہ جبر و تشدد کے عذاب سے نجات دلائے ہر سال محض دن منانے سے صورتحال درست ہونے کا ہرگز اِمکان نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر انسان اس اٹل حقیقت کو ذہن میں رکھے کہ تمام مرد اور خواتین بلا تخصیص جنس ہر سطح پر بحیثیت انسان یکساں ہیں۔ کتابِ روشن میں بھی درج ہے کہ:
’’اور جو کوئی بھلے کام کرے گا چاہے مرد ہو یا عورت تو وہ جنت میں داخل کیا جائے گا‘‘۔ (القرآن)