عوام میں ایک عام تاثر ہے کہ سیاست دان جھوٹ ہی بولتے ہیں ، اور یہ حقیقت بھی ہے اور اگر سب ہی جھوٹ کا سہارہ لیکر اپنے آپ کو عوام میں ایماندار اور قوم کا خادم ثابت کرنے کیلئے دوسرے سیاست دان کی جھوٹ پر کیوں واویلا مچاتے ہیں۔ حکومت میں آنے کیلئے ، حکومت میں قائم رہنے کیلئے سیاست دان اس میںکوئی شرم محسوس نہیںکرتے کہ ٹکا کر جھوٹ بولیں اتنا جھوٹ کہ بولیں کہ سننے والے کو سچ کا گماںہونے لگے ۔ سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پنامہ کے معاملے پر پارلمینٹ کے اجلاس میں مشہور تقریر جسکا موضوع مشہور ہوگیا کہ ’’ جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ثبوت ‘‘ والی تقریر کرڈالی جس سے وہ انکاری ہوچکے ہیں کہ یہ معلومات انکی مجتمع کردہ نہیں تھیں۔ میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ سابق وزیر اعظم کا جرم مالی کرپشن نہیں بلکہ غیر قانونی طریقے سے اپنی دولت کو بیرون ممالک بھیجناہے ۔ نیز جب کوئی شخص کئی سال تک حکومت کرے تو وہ کچھ ’’ بادشاہ قسم ‘‘ کا دماغ رکھنے لگتا ہے کہ مجھ سے کون پوچھے گا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانیں اپنے مفاد میں پھلانگ لگا کر غیر قانونی اقدامات کرتا ہے مد مقابل جب موقع ملتا ہے وہ قانون کی اصل شکل سے اسپر وار کرتا ہے جو اب میا ں صاحب اور انکے خاندان سے روا ںہے ۔ اس وقت جب پاکستان میں CEPEC کے خلاف سازشیں اپنے عروج پر ہیں ہمیں آپس میں دست و گریبان دیکھ کر بھارت پھر اپنی مکاری پر اتر آیا ہے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور سازشوں میں مصروف ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں بشمول حکومتی جماعت اس بات کی بحث پر لگے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سو دن میں کچھ نہیں کیا ۔ اس میں غلطی حزب اختلاف کی نہیں چونکہ ہمارے ملک کی سیاست جس مقام پر ہے اس میں معصوم اور غیرتعلیم یافتہ عوام کو اصل مسائل سے ہٹا کر اسی طرح کی بے وقوفانہ بحث میں الجھا دیا جاتا ہے یہ سو دن کی بحث میں غلطی تحریک انصاف کی بھی ہے سو دن چاند تارے توڑکر لانا نا ممکنات میں سے ہے مسائل سے گھرے عوام جنہیں بنیادی تعلیم میسر نہیں ، کھانے کو دو کے بجائے ایک وقت روٹی میسر ہے ، صاف پانی میسر نہیں وہی پانی پیتے ہیں جس تالاب میں جانور نہاتے اور پانی پیتے ہیں اگر وہاں انہیں سنہرے خواب دکھا دئے جائیں جو تحریک انصاف کے تمام ہی لوگ جنہوںنے کنیٹنر پر کھڑے ہوکر طاہر القادری کے مریدوں کے سامنے سے سیاست کا آغاز کیا اور عوام و ملک کو درپیش مسائل کے حل ، پاکستان سے کرپشن سے پاک معاشرہ فراہم کرنے کے نعرے نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی ، جلسوںمیں طاہر القادری سے جائنٹ وینچر ختم ہوگیا اور تحریک انصاف اپنی محنت اور بلند و بانگ وعدوں کے سہارے برسراقتدار آگئی ، ساتھ ہی یہ بھی وعدہ کردیا کہ ــ’’سو دن ہماری کارکردگی دیکھیں اگر صحیح نہ ہوئی تو حکومت چھوڑ دینگے ‘‘ یہ ایک خام خیالی تھی جغرافیائی مشکلات میں گھرے ، معاشی بد حال ملک کیلئے سو دن نہیں اگر سچائی سے یہ کہا جاتا ہے ہم اپنی راہ متعین کرینگے اور کم از کم ایک سال میں ملک کو درپیش مسائل ، مہنگائی، بے روزگاری ، دہشت گردی سے نجات دلائیں گے تو آج سو دن کی کہانی والے ٹاک شوز نہ ہوتے ۔ نوکر شاہی جسکا دعوی ہوتا ہے کہ حکومت وہ چلاتی ہے سو دن میٰں تو وہ بھی قابو نہ آسکی ملکی مسائل کا حل تو دور کی بات ہے ۔ملک کے کمزور قوانین اور سیاست دانوں کو ایک دوسرے کو دئے ہوئے پس پردہ NRO سے سوئس بینکوں میں واقعی کرپشن سے حاصل کئے گئے کروڑوں ڈالرز پاکستان نہ آسکے بلکہ اسے واپس لانے کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں پر لاکھو ں ڈالرز قومی خزانے کے ضرور خرچ ہوئے ، اب تحریک انصاف نے یہ ذمہ داری شہزاد اکبر کو دے دی ہے جنکا دعوی ہے وہ جلد لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئینگے ۔ یہ بھی عوام دیکھ لینگے ۔ حکومت کا دعوی ہے کے عدالتی معاملا ت ، نیب کے معاملات میں وہ دخل اندازی نہیں کرتے اگر یہ دعوی محض دعوی نہیں ہے تو یہ کام ان عدالتوںپر چھوڑ کر بھارتی سفارتی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی تیاری بہتر انداز میں کریں، ہمارا رویہ بھارت کے ساتھ کچھ اسطرح کا ہے ’’اب کے مار کے دیکھ ‘‘ اور وہ مارے جاتا ہے ۔ ہم دوستی کی پینگیں بڑھانے کیلئے کوشاںہیں بارڈر کھل رہے ہیں جب بند بارڈرز سے کل بھوشن داخل ہوسکتا ہے تو کھلے بارڈرز پر کیا ہوگا ؟؟اللہ کی حفاظت رہے ۔ وزیر اعظم سعودی عرب میں بسے پاکستانیوںپر توجہ دیں چونکہ انکے کچھ وزراء کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ سعودی عرب کے کسقدر قریب ترین بھائیوں والے تعلقات ہیں اس سے بے خبر وزراء جو منہ میں آتا ہے دوست ممالک کے متعلق اپنی رائے زنی کردیتے ہیں جو سعودی عرب میں مقیم پاکستان کی ذرمبادلہ مشینوں کیلئے مشکل کا باعث بن سکتی ہے ۔ دن گننا اور دنوںکا حساب دینے سے بہتر ہے کہ ملک میں حکومتی رٹ مقامی طور پر قائم ہو ،کچھ مذہبی عناصرپر بغاوتی تقاریر کے بعد ان پر بغاوت نہیں بلکہ انہیں حفاظتی تحویل میںلئے جانے کے معاملے پر تمام محب وطن دانتوں میں انگلی دبا کر دیکھ رہے ہیںکہ حکومتی رٹ کہاں ہے ؟؟ ۔