گورودوارہ کرتار پور تک سکھ یاتریوں کو بھارتی پنجاب سے براہ راست راہداری دینے کے پاکستانی فیصلے کی دنیا بھر میں تحسین ہورہی ہے ،آج وزیراعظم پاکستان عمران خان اس راہداری کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ مذہبی عبادت گاہوں کو ان کے پیروکاروں کے لئے کھول دینے کے دیرینہ مطالبات بھارت اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ سے اہمیت کا موضوع رہے ہیں۔ اس حوالے سے سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بھی کوششیں جاری رہیں لیکن کبھی سکیورٹی اور کبھی فرقہ واریت کو عذر بنا کر انسانوں کے درمیان مصنوعی دیواریں کھینچی گئیں اور کبھی سیاسی حکومتیں ،اسٹیبلشمنٹ کے مفادات اور خود ساختہ انا کی بھینٹ چڑھ کر فیصلہ سازی میںان کی سازشوں کا شکار ہوتی رہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد اور ان کی عبادتگاہوں کا احترام بالآخر سب کیلئے اٹل حقیقت ہے اور فی الواقع اس فیصلے کو اسی لئے دنیا بھر میں تحسین کی نظرسے دیکھا جا رہا ہے۔
نارووال اور شکرگڑھ کے درمیان نالہ بئیں کے کنارے اور دریائے راوی سے 4کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع پاک بھارت سرحد پرسفید رنگ کی ایک خوبصورت عمارت واقع ہے جو مغلیہ طرزتعمیر کا شاہکارہے۔ اس کی بلندی50فٹ سے زیادہ ہے اوپر سنہری رنگ کے جاذب نظر اور دلکشاس کے کلس دور سے ہی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں۔ اس عمارت کی 3منزلیں ہیں گنبدوں اور محرابوں سے بنی ہوئی یہ شاندار اور 5سو سال قدیم عمارت دراصل سکھ مذہب کا گورودوارہ ہے اور یہاں سکھ مذہب کے بانی گرونانک مہادیو کی قبر اور مڑھی (آخری آرام گاہ) ہے اس کے ساتھ ایک قدیم کنواں اور50ایکڑ سے زائد زرعی اراضی ہے جو گرودوارہ کے نام وقف ہے جبکہ یہاں یاتریوں کے لیئے لنگر خانہ ،گیسٹ ہاوسز،سکیورٹی آفس اور گیانی کی رہائش گاہ ہے جبکہ گرودوارہ کے باہر ریسٹورینٹس اور دکانیں بنی ہوئی ہیں یہ عمارت جسے گرودوارہ کرتار پور صاحب کہتے ہیں دراصل سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے 12کروڑ انسانوں کی عقیدت ومحبت کا مرکز ومحور ہے،جسے آج تک رشد وہدایت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
سکھ مذہب کی بنیاد رکھنے والے توحید پرست گورونانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری 18سال یہیں گزارے تھے اور یہیں ان کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔سکھ مذہب کی بنیاد گورونانک نے رکھی ان کے بعد اس مذہب میں گروانگند،امر داس، رام داس،ارجن، ہرگوبند،ہررائے،ہرکرشن،تیغ بہادر،گوبند سنگھ اور اور آخری گورو مذہبی کتاب گرنتھ صاحب نے اس مذہب کی آبیاری کی۔ گورونانک15اپریل 1469کو رائے بھوئی کی تلونڈی میں پیدا ہوئے اس جگہ کو اب ننکانہ صاحب کہتے ہیں جو پاکستان کے حصے میں پنجاب میں لاہور سے100کلومیٹر دور جنوب مغرب کی سمت میںواقع ہے ۔ان کے والد کا نام کلیان چندداس بیدی تھا وہ محکمہ مال میں پٹواری تھے جبکہ والدہ ماتاترپتا تھیں۔ ان کے والدین ہندو مت کے ماننے والے تھے اور بتوں کی پُوجا کرتے تھے ان کی ایک بہن تھی اس کا نام بی بی نانکی تھا جو ان سے5سال بڑی تھیں1475میں بہن کی شادی جے رام سے ہوئی اور وہ بیاہ کر سلطان پور چلی گئیں نانک کو اپنی بہن سے بہت لگائو تھا لہذا وہ بھی وہاں 16سال کی عمر تک رہے اس دوران انہوں نے سکول میں تعلیم بھی حاصل کی ان کا بہنوئی دولت خان لودھی کا ملازم تھا لہذا نانک نے بھی ان کے ساتھ کام شروع کردیا سکھ تاریخ کے مطابق وہ شروع سے ہی روحانی فیض کے مالک اور اللہ کی وحدانیت کے پرچارک تھے 24ستمبر1487کو ان کی شادی بٹالہ میں مول چند اور چندورائے کی صاحب زادی سلکھنی کے ساتھ انجام پائی8ستمبر 1494کو ان کے ہاں پہلا بیٹا سری چند اور 12 فروری1497کو دوسرا بیٹا لکھ می چند پیدا ہوا ۔گورو نانک نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ سفر میں گزارا انہوں نے27سال کی عمر میں اپنے خاندان کوچھوڑا اور دھیان گیان کیلئے تبت کی ریاست میں چلے گئے جہاں انہوں نے سومیرو کی پہاڑی چوٹی کی یاترا کی۔ بعد میں وہ مکہ اور بغداد بھی گئے بٹالہ اور ملتان میں بھی رہے ایمن آباد اور حسن ابدال میں بھی ٹھہرے وہ ہر جگہ اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے اور دنیا کو دکھ کی جگہ بتاتے ان کے نظریات کے مطابق انسان بنیادی طور پر لوبھ اور لالچ کا شکار ہوکر دوسروں کا حق مارتا ہے۔ وہ ایک اللہ کی پوجا کی طرف لوگوں کو مائل کرتے اور محبت اور خلوص کا درس دیتے تھے ان کے ساتھ 2مسلمان چیلے ہوتے تھے ان میں سے ایک چیلا بھائی مردانہ تھا جو سنکھ بجاتا اور گورونانک بلند آواز میں گا کر اپنی شاعری سناتے تھے ان کے کئی اشعار اور بانیاں ہوبہو قرآن حکیم کی ترجمانی کرتی ہیں۔ انہوں نے ست سری اکال کا تصور دیا جس کا مطلب ہے کہ سچی ذات اس اللہ کی ہے جو اکال یعنی اکیلا ہے انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کنگھا ،کیش(بال)،کڑا ،کرپان( تلوار) اور کاچھا(جانگیہ) ساتھ رکھنے کا تصور دیا ۔گرونانک دعوت وتبلیغ کے لئے بغداد گئے تو وہاں انہیں سرکاری حکام نے گرفتار کرلیا اور ان کے عبادت کے انوکھے طریقے کو ہدف تنقید بنایا ۔ انہیں سرکاری حکام کے سامنے پیش کیا گیا جہاں انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں نہ ہی ہندو ، تاہم وہ ایک اللہ کی عباد ت کرتے ہیں اور لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتے ہیں جس پر انہیں رہا کردیا گیا گرونانک کو پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐسے دلی عقیدت تھی انہوں نے حضرت محمدؐ کے اسم گرامی کو سب سے پیارا نام قرار دیا ۔انہوں نے حقوق العباد پر بہت زور دیا ان کی تعلیمات اور خاص طور پر اخلاقیات کا فلسفہ اسلام کے قریب ترین تھا یہی وجہ تھی کہ ان کے پیروکاروں میں مسلمان بھی بڑی تعداد شامل تھے گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری18سال نارووال کے قریب دریائے راوی کے کنارے پر واقع گائوں کرتار پور صاحب میں گزارے یہاں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور بیلوں کی جگہ اپنے ہاتھوں سے کنویں کے چکر گھما کر پانی نکالتے جو فصلوں کو سیراب کرتا تھا ان کے بارے میں بہت سی روحانی کرامات کا ذکر بھی ملتا ہے ۔گورونانک نے خود کو نبی یا اوتار قرار نہیں دیا وہ گُورو یعنی ایک استاد کہلانا پسند کرتے تھے سکھ عقائد کے مطابق انہیں اللہ کی رہنمائی حاصل تھی بچپن میں ہی انہیں آسمانی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
ان کا انتقال 22ستمبر1539کو 70سال کی عمر میں اسی تاریخی مقام کرتار پور صاحب میں ہوا تو مسلمانوں اور سکھوں میں ان کی تدفین کے حوالے سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کرکے انہیں سپرد خاک کرنا چاہتے تھے جبکہ سکھوں کا اصرار تھا کہ وہ اپنی رسومات کے مطابق انہیں نذرآتش کرکے ان کی راکھ کرتار پور صاحب میں دفن کرنا چاہتے ہیں اختلاف زیادہ بڑھا تو ایک دانشور نے تجویز دی کہ نانک کی نعش کو کمرے میں رکھ کر باہر سے تالہ لگادینا چاہیئے اور صبح تک انتظار کرنا چاہیئے ہوسکتا ہے کوئی نشانی ظاہر ہوجائے اس اتفاق کے بعد ان کی نعش کمرے میں مقفل کردی گئی صبح تالہ کھولا گیا تو ان کی چارپائی پر ایک چادر بچھی ہوئی تھی چادر ہٹائی گئی تو ان کے جسد ِخاکی کی جگہ گلاب پھول رکھے ہوئے تھے مسلمانوں اور سکھوں نے آدھے آدھے پھول بانٹ لئے مسلمانوں نے انہیں دفن کرکے قبر بنا دی اور سکھوں نے انہیں جلا کر ان کی راکھ قبر سے بیس فٹ دور زمین میں دفن کرکے اوپر مڑھی بنا دی ۔قبر اور مڑھی آج بھی گردوارہ کرتار پور صاحب میں موجود ہیں بابا گرونانک کی برسی ہر سال 22تا24ستمبر کرتار پور صاحب (نارووال)میں منائی جاتی ہے امسال بھی ان کی برسی مذہبی عقیدت واحترام کے ساتھ منائی گئی ۔ان تقریبات کو جوت جوتی کا نام دیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے سکھ مذہب کے پیروکار شرکت کرتے ہیں تقریبات 3دن جاری رہتی ہیں ایڈمنسٹریٹر دربار صاحب کرتار پور گیانی گوبند سنگھ یاتریوں کو خوش آمدیدکہتے ہیں اور برسی کی تقریبات کا افتتاح بھی کرتے ہیں۔ اس موقع پر یاتریوں کی تواضح لنگر اور پنیر سے کی جاتی ہے جبکہ سرحد کے دوسری جانب بھارتی پنجاب میں گرودرشن کے نام سے ایک چبوترہ سا بنایا گیا ہے جہاں سے لوگ کھڑے ہوکر گرودوارہ کرتار پور صاحب کے درشن کرتے ہیں اسے درشن پوائنٹ بھی کہا جاتا ہے امسال پاکستان میں عام انتخابات کے بعد جب چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا کہ اس تقریب میں بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو بھی مدعو کیا گیا تھا دوران تقریب چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوت سنگھ سدھو سے ہاتھ ملایا اور ان سے گلے ملے تو انہیں پیش کش کی کہ پاکستان بھارتی سکھ یاتریوں کو گورودوارہ کرتار پور تک آسان رسائی دینے اور وہاں سے سرحد کھولنے کو تیار ہے۔ جس پر نا صرف نوجوت سنگھ سدھو نے ان سے اظہار تشکر کیا بلکہاس اعلان سے دنیا بھر کے12کروڑ سے زائد سکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سفارتی حلقوں نے بھی اس پیشکش کا خیرمقدم کیا۔ شروع میں بھارت کا متعصب اور کم فہم میڈیا پاکستانی آرمی چیف کی پیش کش اور نوجوت سنگھ سدھو سے گلے ملنے کے فیصلے پر تنقید کرتا رہا پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے بھی بارہا کرتار پور بارڈر کھولنے کی پیشکش کو دہرایا جس پر بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اسے پاکستانی پیش کش کو قبول کرنا پڑا۔ پاکستان گرودوارہ سے پاک بھارت بین الاقوامی سرحد تک4کلومیٹرز سے زائد سڑک تعمیر کرے گا جس کے بعد بھارتی سکھ یاتریوں کو گرودواہ کرتار پور تک آسان رسائی حاصل ہوجائے گی یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت پاکستان پر یاتریوں کے لئے 100ڈالرز فی کس انٹری فیس مقرر کردے تو سالانہ کروڑوں ڈالرز زر مبادلہ حاصل ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستانی معیشت مضبوط ہوگی بلکہ سکھ یاتریوں کو بہتر سہولیات اور سکیورٹی بھی فراہم کی جاسکے گی ۔