بھارتی حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم بھارتی قونصلر جنرل نے امریکہ اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے بیان دیا ہے کہ بھارت بھی اسرائیل کی طرز پر مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں ہندو بستیاں بسائے گا۔ اسرائیل کے زیر انتظام مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل یہ کام نہایت سرعت سے انجام دیتا چلا آیا ہے جس پر عالمی برادری کی شدید مذمت کے باوجود عمل ہوتا رہا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کی طرف سے مسلم فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی حمایت کی ہے۔ جس کی وجہ سے اسرائیل مزید دلیر ہو گیا ہے۔ فلسطینیوں کے شدید احتجاج عالمی برادری کی شدید مذمت کے باوجود اسرائیل اپنی اس مذموم حرکت سے باز نہیں آ رہا۔ اس وقت بھارت عالمی سطح پر کشمیر میں کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے معتوب ٹھہرا ہوا ہے۔ لداخ کو بھارت میں ضم کرنے ، وادی کشمیر کی علیحدہ آئینی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنانے کی وجہ سے وہ عالمی برادری کی شدید تنقید کی زد میں ہے۔ اب بھارت نے اس دبائو سے نکلنے کے لئے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہ نیا منصوبہ امریکہ میں پیش کیا ہے جس پر ظاہر ہے اب امریکہ کو مخالفت سے پہلے سوچنا پڑے گا۔ کیونکہ اگر امریکہ کشمیر میں ہندو بستیوں کی تعمیر کو ناجائز قرار دیتا ہے تو بھارت فوراً اسے فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر کی حمایت یاد دلائے گا۔ بھارت کی یہ مکروہ چال بہت گہری ہے۔ اس نے نہایت مہارت سے مسئلہ کشمیر کو تباہ کرنے ختم کرنے کے لئے جو صورت حال بنائی ہے اس سے اس کی مکارانہ چانکیائی سیاست اور مکروہ عزائم آشکار ہو رہے ہیں۔ بھارت اب کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم کر کے وہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے پر عمل پیرا ہے۔ کشمیری اس وقت موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ 114 روز سے وہاں ہر قسم کی زندگی کی سہولت ناپید ہے۔ بیرون دنیا سے ان کا ہر قسم کا رابطہ ختم ہو چکا ہے۔ درحقیقت اس وقت شدید موسم سرما اور برفباری نے کشمیر کو ایک یخ بستہ برفبانی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ جس طرح ہٹلر نے یہودیوں کی ٹھنڈی یخ بستہ جیلوں میں نسل کشی کی اسی طرح وہی کام نریندر مودی بھی کشمیر میں کر رہا ہے جہاں خوراک، ایندھن اور ادویات کی بدترین قلت کسی بڑے انسانی المیہ کو جنم دے سکتی ہے۔
بھارت کی 80 لاکھ افراد سے زندگی چھیننے کی کوشش پر عالمی برادری صرف بیانات کی حد تک مذمت کرنے پر محدود ہے۔ کوئی ملک یا عالمی ادارہ یا انسانی حقوق کی تنظیم اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست نہیں کر رہی۔ بھات کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے امریکہ صدر کی ثالثی کی متعدد بار پیش کشوں کو بھی مسترد کیا ہے۔ ترکی، روس، چین ، برطانیہ اور اقوام متحدہ کی پیشکشوں کو بھلا وہ کیا خاطر میں لائے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ایران میں ایک ہفتے میں مہنگائی کے خلاف ہونے والے فسادات والے علاقوں میں وہاں کی حکومت نے انٹرنیٹ بند کیا گیا تو امریکہ نے ایرانی وزیر اطلاعات کے دورے پر پابندی لگا دی۔ مگر کشمیر میں 115 دن گزرنے کے باوجود یہ سب کچھ بند ہے مگر امریکہ بھارت کے کسی وزیر پر وزیر اعظم پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگا رہا۔ نہ بھارت پر کوئی تجارتی یا اقتصادی پابندی لگا رہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی دوغلی پالیسی کو ظاہر نہیں کر رہا۔ اقوام متحدہ اور اقوام عالم نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان یہ دوہرا معیار کیوں اپنایا ہوا ہے۔ اس وقت 80 لاکھ کشمیری بھارتی مظالم کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ان پر زندگی کی ہر نعمت و سہولت بند ہے کیونکہ وہ بھارت کی غلامی سے آزادی اور اپنا چھینا گیا حقِ خودارادیت واپس مانگ رہے ہیں۔ جس کا بھارت نے وعدہ کیا تھا اور اقوام متحدہ میں اس کی قرارداد بھی منظور ہوئے 50 برس ہو چکے ہیں۔ اب جس طرح بھارت کے امریکہ میں تعینات قونصلر جنرل نے کشمیر میں ہندو بستیاں بسانے کے اسرائیلی ماڈل کا اعلان کیا ہے وہ کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بدترین سازش ہے۔ جس سے کشمیر میں مزید خونریزی ہونے کاخطرہ ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ خود مسلم امہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہی یا کر رہی۔ سب خاموش ہیں کیونکہ وہ اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ مسلم حکمران اگر بیدار مغز ہوتے تو آج مسلم دنیا کا یہ حال نہ ہوتا۔ ان بے چاروں سے کشمیریوں کی امداد کی توقع رکھنا عبث اور فضول ہے۔ان حالات میں کیا یہ نہیں لگ رہا کہ اب کشمیریوں کے پاس دو ہی راستے باقی بچے ہیں بھارت کی غلامی یا موت۔
کشمیر میں اسرائیلی طرز پر ہندو بستیاں بسانے کا اعلان
Nov 28, 2019