اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی‘نمائندہ خصوصی، نمائندہ نوائے وقت، اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس میں آرمی چیف کی ملازمت کی میعاد میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ میں گزشتہ روز کی سماعت کے دوران سامنے آنے والی آبزرویشنز کی روشنی میں سارے معاملہ کا از سر نو جائزہ لیا گیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آ رمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق وفاقی حکومت نے عدالتی اعتراضات دور کرنے کے لئے مشاورت کے بعد اپنا جواب تیار کر لیا۔ گذشتہ روز سپریم کورٹ میں معاملہ کی سماعت کے آج تک ملتوی ہونے کے بعد وزیر اعظم نے حکومت کی قانونی ٹیم کا ہنگامی اجلاس بلایا جس میں اٹارنی جنرل، سابق وزیر قانون فروغ نسیم، قانون دان بابر اعوان اور دیگر سینئر افسروں کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔ وزیر اعظم کو بدھ کو سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے جانے والے نکات کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ تفصیلی مشاورت کے بعد تمام قانونی نکات کا دفاع کرنے کے لئے جواب تیار کیا گیا۔ اس میں ایک نئی سمری کے مسودے کی تیاری بھی شامل ہے جو اعتراضات کو دور کرتے ہوئے ٖ تیار کی گئی، اس میں توسیع کے لفظ کو شامل کیا گیا، اس کی سرکولیشن کے عمل کے ذریعے سماعت سے قبل کا بینہ ارکان سے منظوری لی جائے گی۔ اجلاس میں معاونت کے لئے وزیر دفاع کو بھی بلایا گیا تھا، اس اجلاس سے قبل وزیر اعظم سے بعض وزراء نے ملاقات کی تھی، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سکیورٹی صورتحال دیکھ کرکی تاہم حکومت پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم نے گذشتہ سمریز میں اہم سقوم پر تحفظات ظاہر کئے، تاہم اس کے برعکس سابق وزیر قانون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے ان کو سراہا۔ علاوہ ازیں عمران خان نے جمعرات کی شام چھ بجے پارلیمنٹ ہائوس میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں وہ پارلیمانی پارٹی کو تازہ ترین صورتحال میں پارلیمانی حکمت عملی سے آگاہ کریں گے۔ دریں اثناء سابق وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے، جس میں انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں ہونے والے سماعت سے متعلق آگاہ کیا، ملاقات میں اٹارنی جنرل انور منصور خان بھی موجود تھے۔ ملاقات میںمعاملہ کا قانونی اور آئینی پہلووں سے جائزہ لیا گیا، جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں قانون اور قوائد ضوابط کے مطابق اقدامات اٹھانے بارے غور کیا گیا۔نجی ٹی وی نے کابینہ اجلاس کی اندرونی کہانی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے سمری میں بار بار غلطیوں پر ناگواری کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے دریافت کیا کہ جو اعتراضات عدالت نے اٹھائے سمری کی تیاری میں کیوں نظرانداز ہوئے؟ نجی ٹی وی کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری کابینہ ارکان کو ارسال کر دی، نئی سمری خصوصی میسنجر کے ذریعے بھجوائی گئی ہے۔کابینہ ارکان نے سرکولیشن کے ذریعے سمری کی منظوری دیدی ۔ مزیدبرآں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی معاشی ٹیم کا اجلاس ہوا، جس میں وزیرِ برائے مواصلات مراد سعید، وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر، وزیرِ نیشنل فوڈ سیکیورٹی مخدوم خسرو بختیار، وزیر نجکاری میاں محمد سومرو، وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر، وزیرِ توانائی عمر ایوب، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر، معاون خصوصی ندیم بابر، چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ سید زبیر حیدر گیلانی، گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر، چیئرمین نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی لیفٹنٹ جنرل (ر) انور علی حیدر، متعلقہ محکموں کے سیکرٹری صاحبان و سینئر افسران شریک ہوئے،اجلاس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے قانونی طریقوں سے ملک میں ترسیلات زر بھیجنے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے مجوزہ مراعاتی پیکج وزیرِ اعظم کو پیش کر دیا گیا۔ مراعاتی پیکج میں ترسیلات زر کے فروغ کے حوالے سے بنکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو خصوصی مراعات دیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ،اس سکیم کے تحت قرعہ اندازی کے ذریعے بیرون ملک سے ترسیلات زر بھیجنے والے پاکستانیوں کو انعامات دیے جائیں گے۔ بیرون ملک جانے والے افراد کے لئے بنک اکاؤنٹ کھولنے کی شرط لازمی قرار دی گئی، پاکستان پوسٹ کی جانب سے بتایا گیا کہ ترسیلات زر میں سہولت کاری کے لیے پاکستان پوسٹ کے مقرر ڈاکخانوں کی تعداد 240سے بتدریج بڑھا کر 3200کر دی جائے گی ۔اسٹیٹ بنک آف پاکستان نجی بنکوں کو ترسیلات زر کے ضمن میں کارکردگی کی بنیاد پر مراعاتی پیکیج دے گا ،وزیرِ اعظم نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے موصول ہونے والی ترسیلات ملکی معیشت میں اہم حیثیت رکھتی ہیں، وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی پوری رقم متعلقہ خاندانوں تک پہنچائی جائے۔ وزیرِ اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے مشکل ترین معاشی صورتحال میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کوششوں کی وجہ سے آج ملک میں معاشی استحکام ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک میں معاشی عمل کو تیز کرنے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ و نجی شعبے کی شراکت داری سے مختلف شعبوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے حوالے سے بھی اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، اجلاس میں وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان، وزیر مواصلات مراد سعید، وزیر برائے گلگت بلتستان و امور کشمیر علی امین گنڈا پور، وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی، وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی مخدوم خسرو بختیار، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، چئیرمین سرمایہ کاری بورڈ سید زبیر گیلانی، متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹری صاحبان، صوبائی چیف سیکرٹری صاحبان، چیئرمین نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی لیفٹنٹ جنرل (ر) انور علی حیدر و دیگر سینئر افسران شریک ہوئے، اجلاس میں توانائی، مواصلات، ہوابازی، سیاحت، لاجسٹک،ٹیکنالوجی، ویسٹ منیجمنٹ، سوشل سیکٹر، رئیل اسٹیٹ اور اس کے علاوہ مختلف دیگر شعبوں میں متعدد ایسے منصوبوں کی نشاندہی کی گئی جن میں نجی شعبے کی شراکت داری کو یقینی بنا کر ان ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نوجوان آبادی ملک کے بیش قیمت اثاثہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کے اس ٹیلنٹ کو مثبت طریقے سے برؤے کار لایا جائے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح نوجوانوں کے لئے نوکریوں کے مواقع پیدا کرنا اور معاشی عمل کو تیز کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے روایتی طریقوں سے ہٹ کر غیر روایتی (آؤٹ آف دا باکس) سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔وزیرِ اعظم نے وزرائ اور صوبائی چیف سیکرٹری صاحبانان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے متعلقہ محکموں میں ایسے ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کریں جہاں محض سہولت کاری، قوانین کو آسان بنا کریا کم مالی وسائل لگا کر ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم نے وزارتوں کو ہدایت کی کہ ترقیاتی منصوبوں میں نجی شعبے کی شراکت داری کو یقینی بنانے اور ان کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کے ضمن میں موجود قوانین اور عوامل کا جائزہ لیا جائے۔