یہ احساس کہ ہم میں سے کوئی، کہیں داغِ مفارقت نہ دے جائے گا؟ایک ناقابلِ یقین حد تک ، اذیت ناک احساس ہوتاہے،بعض سحر انگیز شخصیات تو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتیں جیسے قاضی جاوید،آناً فاناً رخصت ہوئے کہ اب تک یقین نہیں آ رہا، ابھی چند دن پہلے ان کی ٹانگ کے فریکچر کی خبر آئی، پھر سُنا کہ’ وہ اب ہم میں نہیںرہے‘ میں ان سے دوستی یا قرابت کا دعوے دار تونہیں ، ان سے دوستی نما شناسائی کا دعوی ضرور ہے، ان سے مل کر کبھی احساس نہیں ہوا کہ وہ دوست نہیں محض شناسا ہیں،یہ ان کی شخصیت کا سحر تھا یا کردار کا کرشما کہ جب بھی ان سے ملاقات ہوئی ،ان کی سحر انگیز مسکراہٹ یوں استقبال کرتی جیسے دو جگری یار مل رہے ہوں، میری ان سے پہلی ملاقات غالباً تیس سال پہلے ہوئی ، یونیورسٹی اولڈ کیمپس سینٹ ہال میں فلاسفیکل سوسائٹی کی تقریب تھی ،ہال میں پہنچے تو دیکھا ، سٹیج پر ایک درمیانے قد کا شخص مسکراہٹیں بکھیرتا ہوا سامعین سے مخاطب تھا،مدلل گفتگو کیا تھی گویا پھول جھڑ رہے تھے۔ فراز کا یہ شعر عملی صورت میں سامنے تھا،
سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
تقریب کے اختتام پر ان سے متعلق پوچھا تو پتا چلا ’’یہ قاضی جاوید ہیں‘‘ نام سُنا سُنا سا لگا،ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ا نہوں نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا، جب انہیں پتہ چلا کہ میں گورنمنٹ کالج ملتان سے آیا ہوں تو کہنے لگے وہاں ہمارا یار ’’خالدی‘‘بھی ہوتا ہے، بغیر کسی توقف کے میں سمجھ گیا کہ ان کا اشارا پروفیسر خالد سعید کی طرف ہے ، کیوں کہ بے تکلف دوست حتیٰ کہ بھابھی بھی انہیں اسی نام سے پکارتی ہیں،مجھے یاد آ گیا کہ قاضی جاوید کا ذکران سے اور ڈاکٹر محمدامین کی زبانی سنا تھا،ان سے دوسری ملاقات چند سال بعد اہل قلم کانفرنس میں ہوئی جو کئی دنوں پر محیط رہی، وہ کسی موقعے پر بھی اپنی مسکراہٹ ماند نہیں پڑنے دیتے تھے،ایک ملاقات زکریا یونیورسٹی میں سائیکالوجیکل کانفرنس میں ہوئی جو قدرے طویل اور تفصیل سے ہوئی،تب لگا کہ ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں،اسی عرصہ میں مجھے پاکستان پنجابی ادبی بورڈ کے ممبر کی سعادت نصیب ہوئی تو ان سے ملاقاتیں تسلسل سے جاری رہیں،کیوں کہ وہ بورڈ کے اعزازی نائب صدر تھے،قاضی جاوید فلسفے کے طالب علم اوراستاد تھے،’برصغیر میں مسلم فکر کا ارتقائ‘، ’افکار شاہ ولی اللہ‘، ’ سر سیّد سے اقبال تک‘ ان کی وجہ شہرت ہیں جو فلسفے کے طالب علموں کیلیے نایاب تحفہ سمجھی جاتی ہیں، ان کے علاوہ ان کی متعدد کتابیں پڑھنے والوںسے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں، پنجابی میں ان کی کتاب ’پنجاب دی صوفیانہ روایت ‘اک بے مثال کتاب ہے، اپنے موضوع کے حوالے سے پنجابی کیا اردو میں بھی ا س کے پائے کی کوئی دوسری کتاب نہیں۔فلسفہ ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔خیبر سے کراچی تک ان کے جاننے والے موجود ہیں،ان کا علمی ادبی قد کاٹھ کس قدر بلندتھا؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، ان کی شخصیت کے گُن اور جادوی مسکراہٹ، پہلی ملاقات میں ہی اپنا گرویدہ بنا لیتی،ان کی گفتگو میں جس قدر شائستگی ہوتی تھی، وہ معاصر میں کم کم نظر آتی ہے، دلیل کے ساتھ بات منوانے کا ہنر بخوبی جانتے تھے، عملی زندگی میں سادگی کا اعلیٰ نمونہ تھے، فلسفے کے استاد کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا، ملازمت سے فراغت کے بعد اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر رہے، یہاں سے فارغ ہوئے تو ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے،وفات سے پہلے تک اس عہدے پر براجمان تھے۔ابھی کچھ دن پہلے پتہ چلا کہ ان کی ٹانگ زخمی ہوئی ہے ، سوشل میڈیا کا بھلا ہو کہ ان کی صحت سے متعلق لمحہ لمحہ خیریت ملتی رہی، اپریشن کے بعد ان کے تیزی سے رو بصحت ہونے کی خبر یں آتی رہیں، تو دل کو تسلی ہوئی مگر پھر اچانک وہ خبر آ گئی جسے کوئی سننا نہیں چاہتاتھا، ان سے تعلق والا کوئی شخص کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہمیشہ مثبت سوچ رکھنے والا، اُمیدکی کرنیں بانٹنے والا، مسکراہٹیں بکھیرنے والا معصوم شخص زندگی سے اتنی جلدی روٹھ جائے گا یا زندگی اس سے یوں منہ پھیر لے گی، یہ عقدہ گذشتہ روز کھلا جب پاکستان پنجابی ادبی بورڈ کی طرف سے ان کیلیے منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں بورڈ کے صدر اور مرحوم کے انتہائی قریبی دوست مشتاق صوفی نے بتایا کہ جب ٹانگ کے معمولی فریکچر کیلیے انہیں قریبی ہسپتال لے جایا جانے لگا تو اپنی شریک حیات سے کہنے لگے،’ فلاں جگہ پچیس ہزار رکھے ہیں وہ لے لو ‘،ان کا خیال تھا کہ یہ پیسے بہت ہوں گے، مگر جب ہسپتال( جسے ہم چیرٹی ہسپتال سمجھتے رہے) انتظامیہ نے معمولی اپریشن کا بل چار لاکھ روپے سے زائد طلب کیا تو ان پر کیا گزری ہو گی؟ایک ایسا شخص جسے دوستوں میں کسی نے کبھی مایوس نہیں دیکھا، جب یہ کہہ دے کہ ’’یار کچھ زیادہ نہیں جی لیا؟ تو دل حلق میں کیوں نہ آئے؟
٭…٭…٭
نہیں لبھنے لعل گواچے ، مٹی نہ پھرول جوگیا!
Nov 28, 2020