ایک بار پھر مریات و گلیات 

Nov 28, 2020

فضل حسین اعوان

دسمبر 2017ء میں ایبٹ آباد میں ایک شادی میں شرکت کرنا تھی وہاں سے نتھیا گلی چلے گئے۔ لاہور سے نتھیا گلی کے عنوان سے ایک تفصیلی آرٹیکل سنڈے میگزین میں لکھا تھا۔ گزشتہ ماہ فیملی کے ساتھ پھر مری ، نتھیا گلی کا پروگرام بن گیا۔ اس پر لکھنے کا ارادہ نہیں تھا کہ دُہرائی ہی ہوتی۔ وہاں کچھ نئی معلومات حاصل ہوئیں ، اس لئے آج کا کالم وجۂ تحریر بنا۔ تین سال قبل پوری فیملی نہیں جا سکی تھی۔ اب سب افراد تھے۔ سات بڑے اور چار چھوٹے چھوٹے بچے۔ گاڑیاں بھی دونوں لے جانی پڑیں۔ ایک رات پنڈی میں قیام کیا دو راتیں نتھیا گلی میں گزارنے کا پروگرام تھا۔ ایک گیسٹ ہائوس میں بکنگ کرا لی تھی۔ اسلام آباد پنڈی سے مری ایکسپریس وے بہترین شاہراہ ہے۔ دوسری سڑک بھی مری جاتی ہے جو ایکسپریس وے سے کم آرام دہ ہے۔ مری میں ہم رُکے نہیں وہاں سے نتھیا گلی چلے گئے۔ یہ راستہ بھی بُرا نہیں ہے۔ 35، چھتیسں کلومیٹر ہو گا۔ ہم نے سفر دن میں کرنے کا قصد کیا تھا۔ لاہور سے جاتے ہوئے پہلا پڑائو کلر کہار تھا۔ وہاں تختِ بابری کی سیر کی۔ اس مرتبہ کوئی مور نظر نہیں آیا۔ چھٹیوں میں کلرکہار میں رونقیں دوبالا ہوتی ہیں۔ یہ جمعرات کا دن تھا لہٰذا شہر میں سُناٹا سا تھا۔ ایک گوشہ عافیت بھانپ کر گھر سے لے جانے والا کھانا کھانے لگے تو سامنے کی دکان سے ملازم نے آ کر گاڑیوں کی پارکنگ فیس طلب کی ، ساتھ ایک چارپائی اور چار کرسیاں بھی رکھوا دیں۔ اس نے پوچھنے پر بتایا کہ تین کپ چائے بنا کر دے سکتے ہیں۔ کلرکہار کی سیر گھنٹے سوا گھنٹے میں مع تناول ماحضر مکمل ہو گئی۔ 
مری سے نتھیا گلی کا ایک پیدل راستہ بھی ہے جس کی طوالت سات کلومیٹر ہے جو صرف ہائیکنگ کے لئے ہے۔ اسے پائپ لائن کا نام دیا گیا ہے۔ ان سے بھی کم فاصلہ ایک سرنگ کی صورت میں دریافت کر دیا ہے۔ ان جگہوں پر جانا ہمارے پروگرام میں شامل تھا بلکہ ترجیح تھا مگر…
مری نتھیا گلی میں گیسٹ ہائوسز کا بزنس بھی کمال کا ہے۔ ہوٹل بھی دستیاب ہیں۔ ان علاقوںمیں اپریل سے اگست تک مارا ماری گہما گہمی اور ہنگامہ خیزی ہوتی ہے۔ ہم اکتوبر کے دوسرے ہفتے گئے تھے اسے عموماً آف سیزن کہا جاتا ہے۔ سیزن میں گیسٹ ہائوس ایک لاکھ روپے فی شب میں بھی کبھی دستیاب نہیں ہوتے ۔ آف سیزن میں کرایوں میں  سستائی اور کمتائی آ جاتی ہے۔ ہمیں 11 ہزار فی شب میں مل گیا۔ ذرا تعمیرات کی سن گن کی خاطر نکلے تو کافی کچھ معلوم ہوا۔ ایک جائیداد چالیس کروڑ میں برائے فروخت تھی۔ یہ نو کنال میں تین کوٹھیاں تھیں۔ سیزن لگے تو چند سال میں قیمت پوری ۔ ایک دس مرلے کی کوٹھی بتائی گئی اس کی ڈیمانڈ دو کروڑ تھی۔ خالی پلاٹ دس لاکھ مرلہ تک دستیاب ہیں۔ پراپرٹی کے ریٹ لاہور ، کراچی ، پنڈی ، پشاور ملتان جیسے…
نتھیا گلی سے ایک سڑک حویلیاں جاتی ہے۔ اس پر چھ سات کلو میٹر چلے تو بائیں ایک سنگل سڑک اُوپر جا رہی تھی۔ اس پر ہو لئے ڈنجرس اور ایڈونچرس۔ کراسنگ کے لئے ایک گاڑی کو رُکنا پڑتا ہے۔ ایک طرف پہاڑ دوسری اُور گھاٹی۔ خوبصورتی میں یہ علاقے لاثانی اور باکمال ہیں۔ بتایا گیا کہ سو کنال جگہ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال کے مالک ڈاکٹر صاحب نے خریدی ہے۔ ان کی اپنی کوٹھی تعمیر ہو چکی ہے پرشکوہ اور نادر۔ باقی جگہ وہ اپنے جیسے ’’مسیحائوں‘‘ کو کنال کنال کر کے فروخت کر رہے ہیں۔ 
درختوں کی ایک بہار چکار ، چہکار اور لہکار ہے ، ایسے حسین مناظر دیکھ کر طبیعت میں ایک خمار سا محسوس ہوتا ہے۔ جب تعمیرات کے لیے درخت کٹتے ہیں تو لگتا ہے انسانوں کو کاٹ رہے ہیں، فطرت کو مار رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ تعمیرات سے وابستہ نوجوان تھا۔ اس نے بتایا کہ جو درخت کٹتے ہیں ہم اسے استعمال میں لاتے ہیں، فرنیچر دروازے اور بھی بہت کچھ۔ لکڑی  علاقے سے باہر لے جانے پر پابندی ہے۔ حکومت نے درخت کاٹنے پر پابندی لگا رکھی ہے؟ حکومت دس مرلے تک کی تعمیر کے لئے تین لاکھ روپے درختوں کی تلفی کی مد میں وصول کرتی ہے۔ کٹے درختوں کے بدلے درخت لگائے جاتے ہیں؟ ان سے پوچھا ، پتہ چلا کہ نہیں لگائے جاتے۔ یہ علاقے صوبہ پنجاب اور کے پی کے میں آتے ہیں۔ ایسے ہی سندھ اور بلوچستان میں بھی ہونگے۔ حکومت اس پر غور کرے ۔ عدلیہ بھی درختوں کے معاملے پر سنجیدہ بلکہ گزشتہ دنوں کی سماعت پر تو رنجیدہ اور کشیدہ بھی نظر آئی ۔ جب شاہراہوں اور نہروں کنارے درخت لگانے کے احکامات میں بجاآوری پر پنجاب اور سندھ حکومت کی طرف سے کماحقہ عمل سامنے نہیں آیا۔ کہیں سے کسی بھی مد میں جتنے بھی درخت کاٹے جائیں ، اُس سے دُگنا لگانے کا قانون بنا دیا جائے ، اس اعلان کے ساتھ کہ مطلوبہ تعداد میں درخت نہ لگانے والے کی سزا کیا ہو گی اور ایسا نہ کرنیوالے کی نشاندہی کرنے والے کو انعام دیا جائیگا اور اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ گلیات میں جا بجا ہر سو بلندیوں کو چھوتے ہوئے درخت ہیں۔ دیار، بیاڑ ، چیڑ کے درخت زیادہ قیمتی ہیں۔ بیاڑ کی لکڑی کا ریٹ 4 ہزار مربع فٹ بتایا گیا۔ دیگر درختوں کی لکڑی سستی ہے۔ بیاڑ سے تیار کردہ مصنوعات کو پالش نہیں کیا جاتا پالش سے اس کی خوشبو کا بکھرائو اور پھیلائو رُک جاتا ہے۔ (جاری) 

مزیدخبریں