پاکستان کی جانب سے او آئی سی سے اسلامو فوبیا کی حوصلہ شکنی اور کشمیر پر سخت موقف کی امید
او آئی سی کے وزراء خارجہ کا دو روزہ اجلاس گزشتہ روز نائیجر کے شہر نیامے میں شروع ہوا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی او آئی سی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان بھی اجلاس سے خطاب کرینگے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے شرکاء کو آگاہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائیگا۔ شاہ محمود قریشی نے نیامے میں سیکرٹری جنرل او آئی سی ڈاکٹر یوسف بن احمد سے ملاقات کی۔ اسلاموفوبیا‘ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا جس میں وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی کے ذریعے اسلاموفوبیا کی حوصلہ شکنی کیلئے پیغام جانا چاہئے۔ وزیر خارجہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش سے آگاہ کیا۔ بھارت جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ مودی سرکار کی ہندوتوا سوچ خطے کے امن و امان کیلئے خطرے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں کئی معاملات پر غور کیا جائیگا۔ امت مسلمہ کو آج گوناںگوں مسائل درپیش ہیں۔ اسلامو فوبیا کانفرنس کا اہم موضوع ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا کردار اہم رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مذہبی ہم آہنگی پر زور دیا گیا تھا۔ دنیا میں ایک خاص مائند سیٹ اسلام کیخلاف لغو اور گمراہ کن پراپیگنڈا کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو سمجھنے والے لوگ تو ایسے پراپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوتے مگر ہر غیرمسلم اسلام کے سلامتی کا مذہب ہونے کے تصور سے آگاہ نہیں ہے۔ ان تک اسلام کے شدت پسند مذہب ہونے کی لغویات ایک خاص ایجنڈے کے تحت پہنچائی جائیں گی تو انکی رائے منفی ہو سکتی ہے اور بعض شدت پسندی پر بھی اتر سکتے ہیں۔ اسلام کیخلاف بغض کینہ اور مخاصمت رکھنے والی ذہنیت کے پیش نظر وزیراعظم اعمران خان نے عالمی سطح پر قانون سازی پر زور دیا تھا مگر آج ڈیڑھ سال بعد بھی اس حوالے سے پیش رفت نہیں ہو سکی۔ او آئی سی کو پیشر فت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکی طرف اب تک ہوم ورک ہو جانا چاہیے تھا۔ عالمی سطح پر قانون سازی کیلئے او آئی سی کا مسودۂ قانون تیار ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر اس حوالے سے کوئی کام ہوا ہے تو اجلاس کے شرکاء کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ اگر نہیں ہوا جس کا زیادہ امکان ہے‘ تو اس طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ عالمی سطح پر قانون سازی ہو چکی ہوتی تو جو کچھ فرانس میں ہوا‘ وہ امکانی طور پر نہ ہوتا۔ اسلامو فوبیا کیلئے پاکستان‘ ترکی اور ملائشیا ایک ٹی وی چینل لانچ کررہے تھے۔ اسکی کچھ ممالک کی طرف سے ناپسندیدگی دیکھنے میں آئی۔ یہ پراجیکٹ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے شروع کیا جا سکتا ہے جس میں کسی ملک کی انا آڑے نہیں آئیگی۔
دنیا بھر میں جب بھی کوئی عالمی کانفرنس ہوتی ہے‘ بھارت اس سے قبل پاکستان کیخلاف جھوٹی افواہیں پھیلانا اور لغو پراپیگنڈا شروع کر دیتا ہے۔ اب اسکی طرف سے کہا جارہا ہے کہ او آئی سی اجلاس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں ہے۔ عام فہم بات ہے کہ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان کو او آئی سی نے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ وہ اجلاس سے خطاب کرینگے۔ مسئلہ کشمیر پر اجلاس میں بات ہونے کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے۔ بھارت ہی کی طرف سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں دراڑوں کی دھول اور گرد بھی اڑائی جارہی ہے جس کی حالات واضح نفی کرتے ہیں۔ تدارک سے معاملات بالکل ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب نے نئی ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن کے نام سے تنظیم شروع کی ہے جس میں بحرین‘ یو اے ای‘ اردن اور پاکستان کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستان نے اس دعوت کو قبول کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول بھارت کی طرف سے اڑائی گئی افواہوں‘ قیاس آرائیوں اور لغو پراپیگنڈے کی او آئی سی سیکرٹری جنرل یوسف بن احمد نے تردید کی ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کا موقف پاکستان کی حمایت میں رہا ہے۔ پاکستان کی درخواست پر او آئی سی نے خصوصی وفد بھیجا جس نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اس وفد کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ او آئی سی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم پر کڑی تنقید اور سخت مذمت کی گئی۔ انفرادی ممالک کی طرف سے بھی یہ سب کچھ کیا گیا۔ ایران‘ ترکی اور ملائیشیا نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت کو کشمیریوں کیخلاف مظالم بند کرنے کی وارننگ بھی دی جس سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے مگر ان ممالک نے سودوزیاں کا سوچ ہی موقف اختیار کیا تھا۔
او آئی سی 57 مسلم ممالک کی تنظیم ہے۔ اقوام متحدہ کے بعد یہ سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اسکے ممبر ممالک کے مابین جیسا اتحاد اور اتفاق ہونا چاہیے‘ وہ موجود نہیں ہے۔ کئی ممالک ایک دوسرے کی طرف بندوقیں تانے ہوئے ہیں۔ مگر فلسطین اور کشمیر ایشوز پر کسی بھی دو ممالک کے مابین اختلاف نہیں ہے۔ تمام ممالک انفرادی طور پر فلسطین اور کشمیر کاز کی حمایت کرتے ہیں۔ او آئی سی ممبر ممالک کے اول تو اختلافات ختم ہونے چاہئیں اگر نہیں ہوتے تو بھی مسئلہ کشمیر پر سخت موقف اختیار کیا جا سکتا ہے۔ بیان بازی‘ تنقید‘ تشویش اور مذمت سے کچھ نہیں ہوگا۔ بنیئے کا بائیکاٹ کیا جائے تو اسکے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔ آج مقبوضہ وادی میں بھارت جس طرح چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کررہا ہے بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے‘ یہ خون ان لوگوں کے سر پر بھی ہے جو ظالم کا ہاتھ روک سکتے ہیں مگر وہ مصلحتوں کا شکار ہے۔ جب تک او آئی سی کے رکن ممالک اپنی اپنی مصلحتوں کے لبادے نہیں اتارتے اور الحادی قوتوں کیخلاف یکجا نہیں ہوتے‘ او آئی سی کے اجلاس نشستند‘ گفتند‘ برخاستند پر ہی منتج ہوتے رہیں گے اور عالمی برادری کو اپنے موقف پر قائل نہیں کر سکیں گے۔