بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا مسئلہ 

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بجلی  اورگیس کے نئے کنکشن پر پابندی کے خلاف رٹ پٹیشن زیر سماعت ہے،اسلام آباد میونسپل کارپوریشن کی صدا بہار شخصیت سید ذیشان نقوی المعروف ’’شانی شاہ‘‘بھی مدعی ہیں ۔ہائی کورٹ اسلام آباد کا  عوام دوست فیصلہ بھی شاید آ جائے،یقینا عدالت عظمیٰ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے کہ شہریان اسلام آباد بنیادی حقوق کا نوٹس لیا اور سی ڈی اے سے بھی  جواب مانگے ۔سی ڈی اے کے ممبر پلاننگ ڈاکٹر شاہد محمود نے اپنے جواب میں لکھا کہ زون ون میں سیکٹوریل ایریا میں سی ڈی اے کے زیر کنٹرول ایریا میں کوئی پابندی نہیں ہے جبکہ زون ٹو،زون فور،زون فائیو میں سی ڈی اے کے بائی لاز کے مطابق لے آئوٹ پلان جو ہائوسنگ سوسائٹیاں منظور کرائیں گی ان کے بلڈنگ پلان سی ڈی اے منظور کرے گا۔مگر اس حوالے سے کیا حکمت عملی تھی کہ اسلام آباد میں غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لئے بجلی اور گیس پر پابندی لگا دیں۔کیا ایسا ممکن ہے کہ صرف بجلی اور گیس کے کنکشن پر پابندی سے اسلام آباد اور گردونواح میں بجلی اور گیس کو بند کیا جا سکتا ہے۔جی سیون مرکز کھڈا مارکیٹ کے عقب میں ایک کچی آبادی شاپر کالونی کے نام سے ہے۔شاید صرف وہاں بجلی کے میٹر نہ لگ سکے،ایک مقامی یا پھر بین الاقوامی این جی او نے وزٹ کیا اور تقریباً ہر گھر کے چھت پر سولر پلیٹ لگا کر تقریباً سب کو بجلی فراہم کر دی ،سوئی گیس کی جگہ گیس سیلنڈر اور درخت کام آئے ،آبادی قائم  ہے،آباد اور شاداب ہے۔اسلام آباد میں تقریباً 42 کچی آبادیوں میں 2 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں ان کو بنیادی حقوق اور سہولتیں دنیا بھی ریاست کا کام ہے۔اگر پاکستان میں 40 سال قبل 30 لاکھ افغانیوں کو پناہ دی جا سکتی ہے تو پاکستان اور اسلام آباد میں ’’پاکستانیوں ‘‘کو کیوں نہیں؟،اس حوالے سے اسلام آباد NA-53 سے قومی اسمبلی کے  سابق آزاد اُمیدوار سماجی ،سیاسی راہنما اور ماہر تعلیم برادرم جاوید انتظار نے شہریوں کے بلا امتیاز بجلی اور گیس کے کنکشن فراہم کرنے کے لئے باقاعدہ تحریک کے آغاز کا اعلان بھی کیا ہے۔اسلام آباد ماسٹر پلان جو کہ 1960 ؁ء سی ڈی اے آرڈیننس کے مطابق لاگو ہے۔حا لات اور واقعات کے تحت اس میں تبدیلی آتی رہی اور کابینہ کی منظوری اور سی ڈی اے بورڈ ممبران کی منظوری سے 1960 ؁ء لاگو ماسٹر پلان مکمل تبدیل ہو گیا،1990 ؁ء کی دہائی میں پی ایم ایل این کے دور میں جب اسلام آباد سے واحد قومی اسمبلی کے ممبر اور سابق ڈپٹی اسپیکر حاجی نواز کھوکھر نے زوننگ لیگولیشن متعارف کرایا ،یعنی 1960 ؁ء کے تیس سال  بعد اسلام آباد کو 5 زون میں بنایا گیا جو کہ مشروم آبادی کو کسی قانون ضابطہ کے مطابق لانے کا کام ہوا۔5 زون بن گئے مگر زون سی ڈی اے 1992 ؁ء میں بناتی ہے،اسلام آباد میں آبادی کاری 1960 ؁ء سے شروع ہوتی ہے۔1980 ؁ء سے 1992 ؁ء تیس لاکھ افغان آباد کار پاکستان آگئے،جس میں اکثریت نے اسلام آباد کا رخ کیا۔آئی - 11 کچی آبادی ترنول اور گردونواح فتح جنگ روڈ کے اطراف آباد ہو گئے،زون ون سی ڈی اے سیکٹوریل ایریا جس میں سی ڈی اے کے علاوہ کوئی ادارہ اتھارٹی نہ آنی تھی مگر ہائوسنگ فائونڈیشن ڈی- 12 ،ای - 12 ،جی- 13 اور جی- 14 اپارٹمنٹ فلیٹس میں آئے ،پہلی خلاف ورزی سی ڈی اے نے حکومتی ڈائریکٹرز سے کیا،زون ٹو پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لئے مختص ہوا جہاں کم سے کم 800 کنال پر ہائوسنگ پراجیکٹ بنایا جا سکتا ہے صرف 4 یا پھر 5 ہائوسنگ سوسائٹیوں کو سی ڈی اے نے این او سی جاری کیا جس میں ملٹی پروفیشنل ،جموں کشمیر ،ٹی ایس ٹی،کینٹ ڈویژن ،مارگلہ ویو اور کچھ ہوں گی،40 ہزار ایکڑ کے زون ٹو میں 4 یا پھر 5 ہزار ایکڑ پر ہائوسنگ پراجیکٹ آئے ،چند کے پاس این او سی ہے باقی نے بھی مشروم آبادی کر دی، اب ان کا کیا ہو گا؟۔زون تھری صرف نیشنل پارک ایریا ہے،جہاں درخت کاٹنا ،پتھر نکالناقانونً منع ہے۔مگر سی ڈی اے نے مارگلہ ہلز پر ہوٹل خود بنایا۔پھر پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیاں ،فارم ہائوس نا جانے کیا کچھ بن گیا،مارگلہ ٹیکسلا سے شروع ہو کر شاہ اللہ دتہ ، محلہ بری امام ؒ،شاہدرہ ،بہارہ کہو تک زون تھری میں کیا کچھ نہیں بن گیا۔زون 4 صرف فارمنگ ،تعلیمی ادارے وغیرہ کے لئے تھا،پارک ویو،سی ڈی اے کا پارک انکلیو ،بحریہ ٹائون نا جانے کتنی ہائوسنگ سوسائٹیاں بن گئی،قانونی اور غیر قانونی ،درخت اور بہار کاٹ دیے۔زون5 میں بھی ہائوسنگ سوساٹیوں کے مختص کیا گیا جس میں کم از کم 400 کنال پر ہائوسنگ سوسائٹی بن سکتی ہے ۔سی ڈی اے کے قواعد کے مطابق قدرتی نالوں کے بارے میں کہا گیا کہ 2000 فٹ چوڑے ہونے چاہئے،نالوں کے  اطراف ایک ہزار فٹ ایک طرف اور ایک ہزار دوسری طرف نالوں کے درمیان سے ،مگر ناجائز تجاوزات ان قدرتی نالوں کے گرد ہوئیں۔جنگلات نے زمینوں پر ہوئی ،اسلام آباد کے اندر قائم شدہ 42 کچی آبادیاں ان نالوں کے گرد ہیں۔جہاں 2 لاکھ سے زائد افراد رہتے ہیں اور سیوریج کے پائپ نے ان نالوں میں ڈالے ہیں،کہاں ہے ایس ٹی پی سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ؟۔اب اگر کسی سطح پر فیصلہ ہوا کہ بجلی اور گیس کنکشن پر پابندی مشروط آبادی کو روک سکتی ہے تو غلط ہے۔اگر گھر بن گیا تو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،ان کنٹرول کرنے کے لئے قانون کے ضابطے میں لانے کے لئے حکمت عملی بنائیں۔یقینا آج کل سی ڈی اے بہت متحرک اور فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن