پروین شاکر کی شاعری نسائی جذبات و احساسات کی عکاس ، انجینئر وسیم فاروقی

Nov 28, 2020

کراچی (نیوز رپورٹر)دنیا ئے سخن کی شہزادی ،عصر حاضر کی سب سے بڑی شاعر ہ پروین شاکر کے 68ویں یوم پیدائش کے موقع پر فروغ علم و ادب فائونڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام ایک تقریب بلاک Jنارتھ ناظم آباد میں منعقد کی گئی جس کی صدارت فائونڈیشن کی صدر گولڈ میڈلسٹ پروفیسر حسین فاطمہ نے کی جبکہ فائونڈیشن کے سرپرست معروف علمی و ادبی شخصیت و سماجی رہنما انجینئر وسیم فاروقی مہمان خصوصی تھے، دیگر مقررین میں شعبہ اُردُو سرجانی کالج کے سربراہ پروفیسر تنویر ملک ،جے ۔آئی ایجوکیشن ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد محمود ، پروفیسر عزیز الرحمن صادق ، پروفیسر شازیہ مصطفی ہمدانی ،پروفیسر عقیلہ نجم نجمی ، افشین قریشی اور فریحہ ناز شیرازی کے نام شامل ہیں۔ اس موقع پر مہمان خصوصی انجینئر وسیم فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروین شاکر بہت کم یعنی صرف 42سال اس کرہ ارض کی مہمان رہیں لیکن ان کے حصے میں جس قدر عزت و شہرت اور بلندی و ناموری آئی دوسری کوئی خاتون شاعرہ اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکی۔ انہوں نے پروین کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروین شاکر کی اولین شاعری پر رومانیت چھائی ہوئی ملتی ہے مگر یہ رومانیت مجنونانہ رومانیت نہیں ہے جو جذبوں کو دیوانگی سے ہم کنار کردے اور فکر کو پابہ زنجیر کرکے رکھ دے بلکہ اس رومانیت سے زندگی سے پیار بڑھتا ہے اور انسانی شعور و ادراک کو مہمیز لگتی ہے یہ رومانیت پھیل کر جب کائنات پر محیط ہوجائے تو شاعری پیغمبری کا ایک جز بن جاتی ہے کیونکہ بڑا شاعر کبھی بھی داخلیت کے حصار میں مقید نہیں رہ سکتا ، وہ ہمیشہ اپنے ناموافق ماحول اور معاشرے کے کھوکھلے پن سے شاکی بھی رہتا ہے اور اسے اپنی شاعری کا حصہ بھی بناتا ہے۔وہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی کو اپنے خیالات ، خوابوں اور تصورات کی مانند پاک و صاف اور حسین و جمیل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے پروین شاکر کے عصری شعور نے اسے اس اجتماعی کرب سے ہمیشہ ہی دوچار رکھا۔شاعر کا قلم اس کاطاقتور ہتھیار ہوتاہے اور اس کی تحریر ایک ہمہ گیر صدائے احتجاج بن کر گونجتی ہے تو پورے عہد کی آواز بن جاتی ہے پروین شاکر کے اس معاشرتی شعور اور آشوب آگہی کی یہ تصویر انسانی احساس کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔ صدر تقریب پروفیسر حسین فاطمہ نے پروین شاکر کی زندگی پرتفصیل سے روشنی ڈالی اور ان کی شاعری کو بھی موضو ع سخن بنایا۔ تقریب کے اختتام پر پروین شاکر کی یاد میں ایک مختصر شعری نشست کا اہتمام بھی کیا گیا۔

مزیدخبریں