ہتھیلی پر سرسوں جمنا ایک محاورہ ہے، جس کا عملی مظاہرہ مصر میں منعقدہ ماحولیاتی کانفرنس کوپ 27 کے انعقاد کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کانفرنس کے دوران وزیراعظم محمد شہباز شریف نے تقریباً تین مواقع پر اس نکتے پر زور دیا کہ ماحولیاتی خرابی میں پاکستان کا ایک فیصد حصہ بھی نہیں ہے ۔ لیکن اس کو نقصان ایک سو ایک فیصد تک جاپہنچا ہے ۔ تین کروڑ انسان بے آسرا اور کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ ان کے گھربار، مویشی، فصلیں سب کچھ اجڑگیا، ہزاروں کلومیٹر طویل سڑکیں اور ریلوے کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا، ماحولیاتی خرابی کی جو سزا پاکستان کو ملی ہے ، اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ۔ یہ سارا کیا دھرا ترقی یافتہ ممالک کا ہے ۔ جہاں کے دھواں اگلتے کارخانے قدرتی ماحول کو زہرآلود بنارہے ہیں۔ اس سے موسمیاتی نظام اتھل پتھل ہوکر رہ گیا ہے ۔ ابھی سردی ختم نہیں ہوتی، کہ گرمی انسانوں کو آن دبوچتی ہے اور پھر بارشوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، جس سے پاکستان خوفناک سیلابوں کی زد میں آگیا۔ اس لئے ترقی یافتہ ،مہذب دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ترقی پذیر و پسماندہ ممالک میں ماحولیاتی نقصان کا ازالہ کرے ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کانفرنس کے فوری بعد اقوام متحدہ نے پاکستان کے وزیراعظم کا یہ مطالبہ منظور کرلیا اور ایک ایسے فنڈکے قیام کی منظوری دیدی ، جس سے تیسری دنیا کے ممالک کو قدرتی آفات سے پہنچنے والی مصائب ومشکلات کے نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اس عظیم اورتاریخی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سربراہی میں جی77 اور چین کے پلیٹ فارم سے ''لاس اینڈ ڈیمیج'' کے مطالبہ کی منظوری کیلئے پاکستان نے کامیابی سے قیادت کی ہے۔ اتوار کو اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ مطالبہ کی منظوری بہترین سفارتکاری کا مظہر ہے، جس کے نتیجہ میں اس کو ممکن بنایا گیا ہے۔ انہوں نے اس حوالہ سے کام کرنے پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر تمام ٹیموں کی کاوشوں کو سراہا۔
اسی سلسلے میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا ایک بیان بھی ملاحظہ فرمائیں ۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی انصاف کے مسائل سے نمٹنے کے لئے لاس اینڈ ڈیمیج فنڈکا قیام اور مالیاتی انتظامات پاکستان اور تمام ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک ’’بڑی کامیابی‘‘ ہے۔ پاکستان کی قیادت میں موسمیاتی انصاف اور جی۔77 کیلئے تاریخی کامیابی کے ساتھ کوپ 27کامیابی سے اختتام پذیر ہو گئی جس میں اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے فنڈز اور مالیاتی انتظامات کیلئے ’’لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘‘ کو ایجنڈا کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے مصر کے وزیر خارجہ کو تاریخی کوپ 27کی میزبانی پر مبارکباد دی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا باقاعدہ مشاہدہ کرنے کے بعد میں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماحولیاتی انصاف کیلئے آواز بلند کرتے ہوئے ماحولیاتی انصاف کی وکالت کی۔ انہوں نے اپنی سربراہی میں گروپ 77 کے منعقدہ اجلاس کے دوران اتفاق رائے سے پاکستان کی تجویز کی منظوری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تجویز پر لاس اینڈ ڈیمیج کو کوپ 27کے ایجنڈے کا حصہ بنانے پر اتفاق رائے کیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے مزید بتایا کہ مذاکرات کے اختتام پر، ہم نے اس اتفاق رائے کو برقرار رکھا ہے اور اس میں فنڈ اور مالیاتی انتظامات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکہ کے خصوصی صدارتی ایلچی برائے ماحولیات جان کیری کے ساتھ مصر میں اور فون پر ہونے والی بات چیت کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے ماحولیات سے متعلق قیادت کو سراہا اور جی 77 کے لئے تعاون کی درخواست کی تاکہ نقصانات اور ان سے نمٹنے کے لیے مالیاتی انتظامات کو عملی شکل دی جا سکے۔ انہوں نے جی 77 کے تمام ممبران اور چین کا پاکستان کی قیادت پر مسلسل اعتماد اور حمایت پر خصوصی طور پر اظہار تشکر بھی کیا۔کوپ 27 میں پاکستان کی ٹیم میں شامل وزارت خارجہ اور وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے اراکین نے وفاقی وزیر شیری رحمان کی سربراہی میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں عالمی سطح پر ایک بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیر خارجہ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ترقی پذیر ممالک کے لیے لاس اینڈ ڈیمیج کی حمایت کی اور ان صدارت میں نیویارک میں جی 77 اور چین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اس کی توثیق کی گئی۔ '' بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالہ سے کہا ہے کہ یہ پاکستان اور تمام ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
یہ تو ہے عالمی سطح پر پاکستان کے تازہ ترین معرکوں کی داستان۔ ابھی اس فنڈ کے قیام کی منظوری دی گئی ہے ۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ اس فنڈ میں کون سا ملک کتنا چندہ عطا کرے گا اورکب کرے گا۔ لیکن سرِ دست پاکستان کو سیلاب کے مسائل سے نمٹنا ہے ۔ ویسے سیلاب سے بڑا طوفان عمران خان نے مچا رکھا ہے ،اور حکومت کی زیادہ توجہ سیلاب زدگا ن کی بجائے عمران خان کے ’’سونامی‘‘ پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومت پہلے اس’’ سیلاب ‘‘سے نمٹ لے ، پھر ستم رسیدہ سیلاب زدگان کی آہیں بھی سنی جائیں گی۔ حکومت کو چاہئے کہ عمران خان سے پانچ ارب وصول کرکے خود سیلاب زدگان میں تقسیم کرے ، جو اس نے ساری دنیا سے اکٹھے کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس فنڈ کو دیمک لگ جائے اور اسے کسی اورکھاتے میں کھانے پینے کیلئے وقف کردیا جائے ۔ بہرحال حکومت پاکستان سیلاب کے نقصانات سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ پاک فوج نے ریسکیو اور ریلیف کا آپریشن کیا ہے ، جس میں ان کے اعلیٰ ترین افسران نے شہادتوں کے نذرانے پیش کئے ہیں ۔ این ڈی ایم اے کے ذرائع بھی مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کررہے ہیں۔ الخدمت ، اخوت،ہیلپنگ ہینڈ جیسی نجی فلاحی تنظیموں نے بھی اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ بہرحال تین کروڑ انسانوں کی دوبارہ آبادکاری ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ موسم بھی سرد اور یخ بستہ ہوچکا ہے ۔ متعدی بیماریاں بھی جان لیوا ثابت ہورہی ہیں۔ اس لئے میری خواہش ہے کہ سارا کام حکومت پر نہ چھوڑا جائے یا عالمی ماحولیاتی فنڈ کا انتظار نہ کیا جائے ،بلکہ ہمارے معاشرے کا جو حسن ہے ، کہ ہم اپنے معاشرے کا خیال رکھتے ہیں ، اس لئے میں نجی فلاحی تنظیموں پر زوردوں گا کہ وہ سیلاب زدگان کی داد رسی و آبادکاری کیلئے سرگرم عمل رہیں۔جب تک ایک ایک فرد کو چین نصیب نہ ہوجائے، تب تک یہ دردمند پاکستانی بھی چین سے نہ بیٹھیں۔ شاعر کہتا ہے :
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
٭…٭…٭