کہتے ہیں اچھا پڑوسی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ دوست تو آپ تبدیل کر سکتے ہیں مگر پڑوسی تو تبدیل نہیں ہو سکتے۔ہماری بد قسمتی دیکھیں کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت کے مغربی پاکستان میں دو پڑوسی ایسے ملے جنہوں نے پہلے دن سے ہی ہماری زندگی اجیرن کر دی۔ایک طرف بھارت تھا جو ہم سے کئی گنا بڑا تھا۔اسکی خواہش کے خلاف پاکستان بن تو گیا لیکن اس نے اسے ایک اچھا پڑوسی تسلیم کرنے کی بجائے ایک لنگڑا لولا معذور ملک بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پہلے ہندوستان میں واقع مسلمان ریاستوں پر قبضہ کیا۔اسوقت کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن سے مل کر سرحدی تقسیم میں بے ایمانی کی۔فیروزپور اور گورداسپور جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہ ہندوستان میں ڈلوائے جس سے بھارت کو کشمیر تک رسائی مل گئی ۔ساتھ ہی مادھو پور اور فیروز پور ہیڈ ورکس بھی اس میں مل گئے اور یوں پاکستانی پنجاب اور سندھ جو زرعی علاقے تھے اور انہی دو ہیڈ ورکس سے سیراب ہوتے تھے۔یکدم زراعت کے پانی سے محروم ہو گئے۔پھر کشمیر جہاں 80فیصد مسلمان اکثریت تھی۔ذرائع آمدورفت کے تمام راستے بھی پاکستانی پنجاب سے تھے پر زبردستی قبضہ کر لیا۔دوسری طرف افغانستان تھا جس کے ہندوستان کے ساتھ بہت گہرے تعلقات تھے۔مسلمان ملک ہونے کے باوجود نہ صرف پاکستان کی سخت مخالفت کی بلکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کو ماننے سے بھی انکار کر دیا۔بھارت کی شہ پر ڈیورنڈ لائن اور پختو نستان جیسے مسائل کھڑے کر دئیے اور یوں پاکستان کو اپنی تخلیق کے ساتھ ہی بہت سے مسائل میں ڈبو دیا گیا۔یہ تو پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ یہ کسی نہ کسی طرح بچ گیا ورنہ ان دونوں ممالک نے تو اسے ختم کرنے(خدانخواستہ) کی حتی الوسع کوشش کی۔یوں ایک اچھا پڑوسی بننے کی بجائے بھارت نے روز اول سے پاکستان کے ساتھ دشمنی کی بنیاد رکھی۔پاکستان پر جنگیں مسلط کیں۔مشرقی پاکستان سازش اور طاقت سے بنگلہ دیش میں تبدیل کر دیا۔ اب باقی ماندہ پاکستان کی سا لمیت کو ختم کرنے کے در پئے ہے۔بھارت کی منافقانہ سازشوں میں سب سے اہم سازش پاکستان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ اور ہرزہ سرائی ہے۔ بھارت کے تمام تجزیہ کار دن رات اسی کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کے خلاف زہر اگلیں۔پاکستانی عوام کو اپنی فوج اور لیڈروں کے خلاف ورغلا کر پاکستان کو کمزور کریں۔اس میں دہشت گردی پھیلائیں۔ایک دوسرے کے خلاف صوبائی تعصب پھیلائیں وغیرہ وغیرہ ۔لہٰذا بھارتی سازشوں کے اہم الزامات کے جوابات حاضر ہیں۔ان لوگوں کا پہلا الزام ہے کہ ہم پاکستانی کردار کے بہت ہلکے لوگ ہیں۔ہم نے اپنے لیڈروں کو قتل کر دیا۔ان میں محترمہ فاطمہ جناح ،لیاقت علی خان ،محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں۔ ہم ان کا الزام کسی حد تک درست مانتے ہیں لیکن ایسے الزام اس قوم کو زیب دیتے ہیں جو خود ایسے الزامات سے پاک ہو۔ ذرا یہ تو بتائیں کہ مہاتما گاندھی جو کہ آزادی کا بہت بڑا ہیرو اورہندوستانی قوم کا باپ تھا۔اسے کس نے مارا؟ پرتاب سنگھ وزیر اعلیٰ پنجاب کرشنا ڈیسائی ممبر پارلیمینٹ کے بی ساہنی اپوزیشن لیڈر سنجے گاندھی ،مسز اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کیا یہ بھی ہمارے لیڈرز تھے؟انہیں ہم نے قتل کیا تھا؟
آپ لوگوں کا دوسرا الزام یہ ہے کہ ہم لوگوں نے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی۔جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔آپ لوگ صرف 1971ء کی جنگ پر اتراتے ہیں۔یہ جنگ آپ نے نہیں ہمارے بنگالی بھائیوں نے جیتی تھی جو آپ کی سازشوں کا شکار ہوئے ۔آپ کی فوج نے22نومبر کو مشرقی پاکستان کا بارڈر کراس کیا اور تمام تر طاقت کے باوجود 14دسمبر کو ڈھاکہ کے نزدیک پہنچی۔آپ نے چار کوروں سے حملہ کیا۔ائیر فورس، ٹینکس،بھاری توپ خانہ تک استعمال کئے جبکہ ہم نہ صرف تعداد میں کم تھے بلکہ ایسے ہتھیاروں سے بھی محروم تھے ۔پھر بھی آپ کو ڈھاکہ پہنچنے تک تین ہفتے لگے۔آپ کے جنرل جیکب یا شاید چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل مانک شاہ نے کہا تھا کہ’’دلدلی علاقے میں چل چل کر پاکستانی فوج کے پائوں گل چکے تھے۔نیند سے ان کی بری حالت تھی پھر بھی وہ ایک ایک انچ زمین کے لئے لڑے ۔نہ وہ بھاگے نہ وہ جھکے۔‘‘یہاں یہ بھی واضح ہو کہ آپ کی پوری ایسڑن کمان کے مقابلے میں ہماری فوج کی کل تعداد محض ستائیس ہزار27000تھی ان کے ساتھ سات ہزار پولیس اور سکائوٹس کے لوگ شامل تھے جو نیم فوجی تنظیمیں تھیں تو یوں یہ کل تعداد 34000تھی باقی سب سویلین تھے۔ 1947ء میں شمالی علاقہ جات میں صرف گلگت سکائوٹس کے لوگ لڑے اور انہوں نے 27000مربع میل علاقہ آزاد کر ایا۔ جبکہ آپ کی طرف سے ریگولر فوج آئی اور زوجیلہ پر ان نیم فوجی لوگوں کے مقابلے میں آپ کے تین جنرلز ٹینکس اور ہوائی جہازوں کا استعمال ہوا جو ان لوگوں نے پہلی دفعہ زندگی میں دیکھے۔باقی کشمیر میں قبائلی لڑ رہے تھے۔ آپ کے سب سے بڑے دفاعی تجزیہ نگار برگیڈئیر(ر) پروین ساہنی کے مطابق پاکستان نے آج تک مغربی محاذ پر کوئی جنگ نہیں ہاری۔ہارنے کا مطلب ہوتا ہے سرحدوں میں تبدیلی۔بھارت اپنی تمام تر طاقت کے باوجود مغربی پاکستان کی سرحد آج تک نہیں توڑ سکا۔تو پھر فتح کیسی؟اس جنگ میں آپ کے بہادر جنرل اور بر گیڈ کمانڈر ڈر کر کماد میں چھپے تھے۔اپنی سٹاف جیپ بھی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ہمارے ہاں تو ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔کارگل جنگ کے متعلق آپ بہادری کے بڑے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ ہمارے مٹھی بھر جوانوں کے مقابلے میں آپ لوگ پورا ڈویژن لے آئے ۔ڈویژن کی سپورٹ میں بوفر گنز اور ائیر فورس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلا ۔میں تفصیل میں نہیں جاناچاہتا صرف آپ کی اپنی رائٹر برکھا دت کے الفاظ میں ’’ پاکستانی فوج اور جنرل مشرف نے کارگل میں بھارت میں گھس کر بھارت کو گردن سے پکڑ لیا تھا۔بھارت بھیک مانگتا ہوا امریکہ کے پاس گیا کہ بچائو ہم کو۔کلنٹن نے نواز شریف کو ڈانٹا۔نوازشریف نے ساری گیم اُلٹ دی اور فوج واپس بلا کر بھارت کے حق میں فیصلہ کروا دیا ورنہ بھارت بچ نہیں سکتا تھا۔مشرف نے بھارت کو توڑ دینا تھا اگر نواز شریف بھارت کی مدد نہ کرتا۔‘‘امید ہے یہ تحریر کافی رہے گی۔
اب آئیں ذرا آپ کی بہادر فوج کا بھی تھوڑا سا تجزیہ کر لیں۔1962ء میں آپ لوگ آزادی کے بعد پہلی دفعہ چین کے خلاف جنگ میں گئے۔بھارتی فوج دوسری جنگ عظیم کی ایک تجربہ کار فوج تھی۔بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے رعونت سے کہا تھا کہ ’’ میں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ چینیوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں ‘‘۔آپ کی شاندار تجربہ کار فوج کا چینیوں نے جو حشر کیا وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔چار ہزار فوجی جنگی قیدی بن گئے۔پھر بھی آپ رعب ہم پر ڈالتے ہیں۔ اپنی فوج کا مورال بہتر کرنے کے لئے 1965ء میں پاکستان پر چڑھ دوڑے۔یہاں بھی لاہور جم خانہ میں خوشی منانے کا خواب الٹا ہو گیا۔ ڈویژن کمانڈر اور برگیڈ کمانڈر ڈر کر جان بچانے کے لئے کماد میں چھپے۔جوان چلتی گاڑیاں سڑک پر چھوڑ کر بھاگ گئے۔کیا عظیم کارکردگی تھی۔اب پچھلے دو سالوں سے چین کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ چینیوں نے ڈنڈے مار مار کر کمانڈنگ آفیسر سمیت آپ کے بیس جوان مار دئیے۔آپ لوگ احتجاج بھی نہ کر سکے۔اسوقت آپ کا تقریباً تین ہزار مربع کلومیٹر علاقہ چین کے قبضے میں ہے۔ دیکھتے ہیں آپ کی شاندار فوج کب اور کیسے اپنا علاقہ واپس لیتی ہے۔کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے جو پھر کسی وقت سامنے لائوں گا۔فی الحال اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں آپ لوگوں کے ایسے ہی رویے کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا اور مجبوراً ہمیں پاکستان بنانا پڑا ۔ورنہ قائد اعظم تو ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔تقسیم ہند کے بعد جب ان سے پاک و ہند کے تعلقات کے متعلق پو چھا گیا تو انہوں نے امریکہ اور کینیڈا کی مثال دی ۔آپ اپنے اس غیر ذمہ دارانہ رویے سے ہمارا بگاڑ تو کچھ نہیںسکتے لیکن نفرت ضرور پھیلا تے ہیں۔ کیا واقعی آپ لوگ ایک اچھے پڑوسی کا رویہ اختیار نہیں کر سکتے تا کہ ہم دونوں ممالک امن سے رہیں۔