پاکستان تحریکِ انصاف نے جس واقعے کو روکنے کے لیے ایک طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی وہ تو بخیر و عافیت انجام کو پہنچ گیا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی کو ملک کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت نے یوں متنازعہ اور سیاسی نہیں بنایا جیسے پی ٹی آئی نے اس معاملے کو موضوعِ بحث بنایا۔ پارٹی کے چیئرمین عمران خان جو کچھ کر رہے ہیں اسے کسی بھی طور ایک جمہوریت پسند سیاسی رہنما کا عمل نہیں کہا جاسکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا، لہٰذا لوگوں کو پتا نہیں کہ عمران خان اور ان کے ساتھی حکومت سنبھالنے کے بعد کیا کریں گے۔ اگست 2018ء سے لے کر اپریل 2022ء تک عمران خان اور ان کے ساتھی تقریباً پونے چار سال تک اقتدار میں رہے، اس دوران اگر وہ چاہتے تو اپنے اقدامات کے ذریعے خود کو اپنے سے پہلے والے حکمرانوں سے بہتر ثابت کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کرنے اور عوام کو حقیقی ریلیف دینے کی بجائے یہ وقت سابقہ حکمرانوں پر تنقید کرنے میں گزار دیا۔
آئین میں درج طریقے کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے ملک اورعوام کی پروا کیے بغیر ہر وہ کام کیا جو ایک سیاسی رہنما کو زیب نہیں دیتا۔ کبھی انھوں نے اداروں کے خلاف بیانات دے کر عوام کوبھڑکانے کی کوشش کی تو کبھی دوست ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بگاڑنے کے لیے غیر سنجیدہ تقریروں کے ذریعے ہیجان برپا کیا۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو انھوں نے آخری حد تک جا کر متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ ان کے ان اقدامات سے ملک اور عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا البتہ پاکستان کے دشمنوں کو ان کی شکل میں ایک ایسا شخص مل گیا جو ملک کے اندر بیٹھ کر نہ صرف عوام کے دلوں میں اداروں کے لیے نفرت بھرنے کی کوشش کررہا ہے بلکہ ملک کو مزید غیر مستحکم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
اب ہر طرف سے مات کھانے کے بعد انھوں نے صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ ہم پارلیمانی پارٹی میں بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ سب ایک ہی دن تمام اسمبلیوں سے کب استعفے دیں گے۔ ہم نے چیف منسٹرز سے بات کر لی ہے۔ کرپٹ نظام کا مزید حصہ نہیں رہیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بجائے کہ ہم توڑ پھوڑکریں، اس سے بہترہے کہ نظام سے باہر نکلیں۔ اگر اسلام آباد گئے تو میرے ملک کا نقصان ہوگا۔ نہیں چاہتا کہ میرے ملک میں تباہی ہو۔ اگر عمران خان کو واقعی ملک کے نقصان کی پروا ہوتی تو گزشتہ ساڑھے سات مہینے کے دوران انھوں نے جس سیاسی نابالغی اور ناپختگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس سے باز رہتے۔ وہ چاہتے تو حزبِ اختلاف کے قائد کے طور پر قومی اسمبلی میں بیٹھ کر حکومت کو راہِ راست پر لانے کے لیے کردار ادا کرسکتے تھے۔ یوں وہ ان لوگوں کی نمائندگی کا حق بھی ادا کر دیتے جنھوں نے ووٹ کے ذریعے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
عمران خان تو اسمبلیوں سے استعفے دینے کی بات کررہے ہیں لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے ہفتے کے روز آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہاکہ الحمداللہ سیاسی صورتحال کنٹرول میں ہے۔ جب تک اللہ نہ چاہے، پنجاب حکومت کو کچھ نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے عہدہ دیا، جو چیز اللہ دیتا ہے اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ پنجاب حکومت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قائم و دائم ہے۔ مدت پوری کریں گے۔ دوسری جانب، ان کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی مونس الٰہی نے کہا ہے کہ 29 جولائی کو اللہ پاک نے سرخرو کر کے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا تھا، اس دن کے بعد سے ہم بونس پر چل رہے ہیں۔ اپنے وعدے پر قائم ہیں، جس دن عمران خان نے کہا اسی وقت پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی۔
اگر صوبائی اسمبلیوں میں استعفوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو وفاق میں قائم اتحادی حکومت بھی اس سلسلے میں خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گی بلکہ حکمران اتحاد کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ کسی بھی طرح عمران خان کی اس حکمت عملی کو ناکام بنائیں۔ عمران خان کے اسمبلیوں سے باہر آنے کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ اعترافِ شکست ہے جو انھوں نے پچھلے سات ماہ سے ایک دباؤ، بلیک میلنگ، کشیدگی اور طاقت کے ذریعے حکومت گرانے کی حکمت عملی دکھائی تھی اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی سے وہ پہلے ہی باہر ہیں اور پنجاب اسمبلی میں اتنے لوگ موجود ہیں کہ حکومت بن سکتی ہے اور خیبرپختونخوا میں دوبارہ نتخابات ہوسکتے ہیں۔ 20 فیصد لوگ ریکوزیشن جمع کرائیں تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی۔
قومی اسمبلی میں اپنے ارکان سے استعفے دلا کر عمران خان استعفوں والا شوق ایک بار پورا کرچکے ہیں اور وہ یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ کتنے لوگوں نے ان کے کہنے پر دل سے استعفے دیے اور کتنے ارکان مجبوراً اس بات کے لیے آمادہ ہوئے۔ اب انھیں چاہیے کہ وہ اپنی ضد اور انا کو ایک طرف رکھ کر ملک اور عوام کے بارے میں سوچیں اور چند مہینے مزید انتظار کر لیں۔ انتخابات بہرطور ہونے ہی ہیں، لہٰذا انھیں چاہیے کہ اب اس وقت کا صبر سے انتظار کریں اور مسلسل منفی بیانات اور غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے اپنی مقبولیت کے گراف کو نیچے نہ گرائیں۔