لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری،تمغہ امتیاز
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) دونوں ممالک کے درمیان توانائی، صنعت، ثقافت، تجارت و کاروبار سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے نئے دور کا محرک ہے۔ سی پیک کے پہلے مرحلہ میں (2015-2020) باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچہ اور توانائی کے شعبوں میں عملدرآمد کی کامیاب حکمت عملی کے تحت نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ حقائق چینی تھنک ٹینک سی جی ٹی این (CGTN) نے اپنے ایک تازہ مضمون میں شائع کئے ہیں ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک تاریخی منصوبہ ہے جس نے 2013 میں اپنے آغاز سے اب تک 10 سال میں پاکستان میں عملی ثمرات مرتب کئے ہیں۔ سی پیک سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور دوستی کے رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہونے کے ساتھ معاشی و تجارتی تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ سی پیک سے پاکستان اور چین کے درمیان مفاہمت اور تعاون کے فروغ کے ساتھ ساتھ باہمی ثمرات حاصل ہوں گے، مستقبل میں زراعت، صنعت، جدت پذیری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مواقع وسیع ہوں گے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ مضمون میں’’ ایک سڑک ایک خطہ‘‘ کے تاریخی منصوبے سی پیک کے معاشی اور تجارتی مثبت اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون میں گذشتہ ماہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعلقات کے حوالے سے ایک سروے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں پاکستانیوں کی اکثریت (85 فیصد) نے چین کو پاکستان کا مضبوط، آزمودہ اور بااعتماد دوست قرار دیا جس کی دوستی پاکستان کے لئے تمام موسموں میں یکساں اور پائیدار رہی ہے۔ مضمون میں پاکستان اور چین کے درمیان گذشتہ چھ سال میں معاشی اور تجارتی تعاون کے اعداد و شمار کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2015 میں پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارتی حجم 18.93 ارب ڈالر تھا جس میں سالانہ بنیادوں پر 18.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جنوری تا جون 2016 میں یہ تجارتی حجم 9.524 تھا جس میں سالانہ بنیادوں پر 9.1 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ جنوری تا جولائی 2017 میں تجارتی حجم 11.53 ارب ڈالر تھا جس میں سالانہ بنیاد پر 6.4 فیصد اضافہ ہوا۔ 2018 میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم 19.08 ارب ڈالر تھا جس میں سالانہ بنیادوں پر 5 فیصد کمی ہوئی۔2018 میں پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 19.08 ارب ڈالر تھا جس میں سال بہ سال 5 فیصد کمی ہوئی۔ جنوری سے دسمبر 2020 تک، پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارتی حجم 17.49 ارب ڈالر تھا جس میں سال بہ سال 2.7 فیصد کمی ہوئی۔ جنوری سے دسمبر 2021 تک دوطرفہ تجارتی حجم 27.82 ارب ڈالر تھا جو سالانہ بنیادوں پر 59.1 فیصد زیادہ ہے۔ ان میں سے پاکستان کو چین کی برآمدات 24.23 ارب ڈالر تھیں جو سالانہ بنیادوں پر 57.8 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کی چین کے لئے درآمدات 3.59 ارب ڈالر تھیں جو کہ سال بہ سال 68.9 فیصد زیادہ ہیں۔ پاکستانی اعداد و شمار کے مطابق چین مالی سال 2015 سے مسلسل چھ سال سے پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور پاکستان کی درآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ اور دوسری بڑی برآمدات کی منزل ہے۔ مالی سال 2020-2019 میں کل دوطرفہ تجارت 10.67 ارب ڈالر تھی اور پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی حجم پاکستان کے کل تجارتی حجم کا 16.7 فیصد تھا۔ سی پیک کے قیام کے بعد سے، پاکستان میں بجلی کی کمی میں بڑی حد تک کمی آئی کیونکہ اس تاریخی راہداری منصوبے میں توانائی کے 10 سے زائد منصوبے شامل ہیں جن میں تھرکول سے چلنے والا پاور سٹیشن، پورٹ قاسم کول سے چلنے والا پاور سٹیشن، کروٹ ہائیڈرو پاور سٹیشن، مٹیاری۔لاہور ڈی سی 660 کے وی ٹرانسمیشن پراجیکٹ، سکی کناری ہائیڈرو پاوراسٹیشن اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ مضمون میں پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے اعداد و شمار بھی شامل کئے گئے ہیں جس کے مطابق جنوری 2022 تک سی پیک کے فریم ورک کے تحت مکمل ہونے والے توانائی کے منصوبوں کی کل پیداواری صلاحیت 5.32 ملین کلوواٹ تک پہنچ گئی۔ سی پیک کے امور پر سابق معاون خصوصی خالد منصور نے کہا کہ بجلی کی اس صلاحیت سے بڑی تعداد میں گھریلو اور صنعتی صارفین کو بجلی فراہم کی گئی اور پاکستان کو بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی ابتر صورتحال سے نجات دلانے میں مدد ملی۔ مٹیاری۔ لاہور ڈی سی 660 کے وی پاور ٹرانسمیشن پراجیکٹ مکمل ہو چکا ہے اور اس منصوبے سے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ پاکستان میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا مسئلہ حل ہوا ہے، پاور لائن کے نقصانات میں کمی آئی ہے اور پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے نیٹ ورک کو بہتر بنایا گیا ہے۔ قراقرم ہائی وے اپ گریڈ اور تعمیر نو کے دوسرے مرحلے اور پشاور۔کراچی ایکسپریس وے پراجیکٹ سے پاکستان اور چین کے درمیان اور پاکستان کے اندر رابطہ سڑکوں پر ٹریفک کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے۔ مضمون میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ سی پیک نے پاکستان کو متعدد عالمی معیار کی شاہراہوں کی تعمیر میں مدد فراہم کی ہے۔ پاکستان میں مشرقی، جنوبی اور شمالی خطوں کو ملانے والا ایک مؤثر اور تیزرفتار سڑکوں کا نیٹ ورک قائم ہوا ہے جس سے شرقی اور جنوبی نیٹ ورک کو منسلک کرنے اور پاکستان کی سیاحت کی صنعت کی ترقی کے نئے مواقع پیدا کئے ہیں۔ سی پیک سے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں جس کے حوالے سے مضمون میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے شعبوں میں زیادہ تر منصوبے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ دریں اثناء چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے ترجمان مینگ دی کے مطابق سی پیک کے گزشتہ 9 سال میں ایک لاکھ نوے ہزار (1,90,000) افراد کے لئے ملازمتیں فراہم کی گئیں جن میں سے 75 فیصد سے زیادہ مقامی ملازمتیں شامل ہیں۔ ان مواقع میں توانائی کے منصوبوں نے سب سے زیادہ ملازمتیں پیدا کیں جن کی تعداد 16,000 سے زیادہ ہیں جن میں پاکستانی ورکرز اور انجینئرز بھی شامل ہیں۔ اسی طرح نقل و حرکت کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے قریباً 13,000 سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ ان میں سے کوریڈور پراجیکٹ کے تحت سب سے بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹ پشاور۔کراچی ایکسپریس وے (سکھر۔ ملتان سیکشن) سے 9,800 سے زیادہ پاکستانی مزدوروں کو روزگار ملااور قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈنگ کے دوسرے مرحلے اور تعمیر نو نے 2,071 سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا۔ براہ راست روزگار کے علاوہ راہداری کے منصوبوں نے ہزاروں بلاواسطہ ملازمتیں بھی پیدا کی ہیں۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ سی پیک منصوبہ 2015 میں پاکستان اور چین کی مشترکہ کوششوں سے گوادر پورٹ سے سی پیک منصوبے پر کامیابی سے عملدرآمد کیا گیا۔ آج کی گوادر بندرگاہ نہ صرف باضابطہ طور پر فعال ہے اوردنیا کی بڑی بندرگاہوں سے منسلک ہونے کا ہدف حاصل کر رہی ہے بلکہ مقامی آبادی کے رہن سہن اور ذریعہ معاش میں بھی بہتری لے کرآئی ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سی پیک کی تعمیر کے پہلے مرحلے میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے اور گوادر پورٹ میں بھی سی پیک کی تعمیر میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔گوادر پورٹ فری زون، سمندری پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ، چین کی مدد سے ووکیشنل اور ٹیکنیکل کالجز، چائنا پاکستان فرینڈشپ ہسپتال، چائنا پاکستان پرائمری سکول اور دیگر مکمل اور زیرتعمیر منصوبوں، چین کی طرف سے گوادر کے عوام کے لئے سولر پاور سسٹم کے عطیہ کردہ آلات سمیت تمام منصوبے مقامی سماجی اور اقتصادی ترقی کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ اگر معیشت کسی ملک کا نچوڑ ہے اور ثقافت کسی ملک کی روح ہے تو سی پیک منصوبہ ثقافتی تبادلوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ دراصل سی پیک اقدام کے تحت پاکستان اور چین ثقافتی اقدار، اصولوں اور ماڈلز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ سی پیک پاک چین اقتصادی تعاون کی تاریخ کی تازہ ترین کوشش ہے۔ پاکستان اور چین سماجی و اقتصادی ماڈلز کے ساتھ ساتھ ثقافتی اقدار کے تبادلہ کا بھی ذریعہ ہیں اور باہمی مفاہمت کو فروغ مل رہا ہے۔ مادی ثقافت کے لحاظ سے پاکستان اور چین ایک دوسرے کے ساتھ مصنوعات، اشیاء اور وسائل کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ غیر محسوس ثقافت میں خوراک، زبان، لباس، مذہب اور طرززندگی شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی نے دونوں ملکوں کے درمیان سماجی روابط اور بندھنوں کو بھی مضبوط کیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی مزید پروان چڑھی ہے۔ سی پیک منصوبے کے چینی انجینئرز نے اپنا کام کرتے ہوئے مقامی افراد میں چینی ثقافت کو متعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ چینی انجینئرز پاکستانی زبان اردو سیکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی ثقافت اور رہن سہن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ آسانی سے کام کر سکیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان عوام سے عوام اور ثقافتی تبادلوں کا ایک اہم پہلو روایتی کھانے بھی ہیں۔ پاکستانی اکثر اپنے چینی ساتھیوں کے لئے گھر سے کھانا لاتے ہیں۔ چینیوں کا اس بات پر یقین محکم ہوا ہے کہ پاکستانی بہت مہمان نواز ہیں۔ پاکستانی ساتھیوں کی طرف سے لائے گئے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے ساتھ چینی خصوصی پکوانوں کا تعارف اور اشتراک بھی کرتے ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان مختلف ثقافتی سرگرمیوں میں پاکستانی کمیونٹی بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے جو دونوں ممالک کے عوام سے عوام کے مابین روابط کے فروغ کا اہم پہلو ہے۔ پاکستان نیشنل آرٹس کونسل کے سابق ڈائریکٹر جمال شاہ نے سنکیانگ کلچرل فیسٹیول میں شرکت کے لئے ایک وفد کی قیادت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر شاندار پرفارمنس پاکستان کی بھرپور ثقافت کی عکاسی کرتی تھی۔ چین میں زیرتعلیم پاکستانی طلباء ہر ثقافتی دن پر اپنی منفرد اور دلکش ثقافت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دونوں ممالک مشکل کی گھڑی اور قدرتی آفات کے مواقع پر ایک دوسرے کے دکھ درد میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں۔ 2008 میں چین کووینچوان زلزلے کے موقع پر پاکستان نے فوری طور پر 20 ہزار سے زائد خیمے چین کو عطیہ کئے۔ 2013 میں، پاکستان نے چین کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کو انسانی بنیادوں پر ایک ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ 2022 کے موسم گرما میں جب پاکستان کو ایک غیر معمولی سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، سی پیک کے تحت سماجی اور لوگوں کے ذریعہ معاش کے تعاون کے فریم ورک کے تحت چین نے پاکستان کو حالیہ سیلاب کے دوران 29 ہزار خیمے، 50 ہزار کمبل، 50 ہزار واٹر پروف سائبان ،امدادی سامان اور دیگر اشیائے ضروریات بھی فراہم کیں۔ چین کی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کو 3 لاکھ ڈالر کی ہنگامی نقد امداد بھی فراہم کی۔ مزید برآں چینی حکومت نے 3 ستمبر کو اعلان کیا کہ وہ پہلے سے فراہم کردہ ہنگامی امدادی سامان میں 100 ملین یوآن کے علاوہ 300 ملین یوآن کا اضافی امدادی سامان فراہم کرے گی۔ چین کی سویلین ریسکیو ٹیم قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے پاکستان گئی اور پاکستان میں چینی کمپنیوں نے آفت زدہ علاقوں میں سڑکوں اور پلوں کی مرمت کا بیڑہ اٹھایا۔ سی پیک نے نئے دور کا آغاز کرتے ہوئے پاک چین تعاون اور باہمی تبادلوں کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ سی پیک کی مشترکہ تعمیر کے ذریعے دونوں ممالک اور معاشروں کے درمیان افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ ملے گا اور باہمی مفاد کو تقویت ملے گی۔ سی پیک جب اعلیٰ معیار کی ترقی کے آئندہ مرحلے میں داخل ہوگا تو پاکستان اور چین کے درمیان مستقبل میں صنعت، زراعت، جدیدیت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور دونوں ممالک کے عوام اعلیٰ معیار کی سہولیات سے مستفید ہو سکیں گے۔ دریں اثنا چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان نے سی پیک کے تحت تعاون کو وسعت دی ہے اور ماحولیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، صنعتی ترقی اور صحت جیسے شعبوں میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورہ چین میں چار نئی راہداریوں، ڈیجیٹل، صنعتی، سبز اور صحت کے شعبوں میں تیزی سے کام کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔دوسری جانب ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے پاکستان اور چین نے ایم ایل ون منصوبہ کو جلد شروع کرنے کی کوششوں پر بھی اتفاق کیا ہے جبکہ کراچی سرکلر ریلوے کو لاہور اورنج ٹرین کی کی طرز پر بنانے کا منصوبہ اور سی پیک کا حصہ بنایا جائے گا۔