مت نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کی میرٹ پر تقرر کر کے قوم کے دل جیت لئے ، ملک میں انتشار و فساد پھیلانے کے خواہشمندوں کے منصوبے خاک میں مل گئے آرمی چیف کی تقرری کے خالصتا انتظامی مسئلے کو جس انداز میں سیاسی تنازعے کی شکل دی گئی اس پر ہر محب وطن متفکر تھا اگر سیاسی اعتبار سے یہ کہا جائے کہ وفاقی حکومت نے ملک میں پی ٹی آئی کی جانب سے پیدا کی جانے والی ہیجانی کیفیت کو نہ صرف ختم کر ڈالا بلکہ اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ ملک کی سینئر قیادت ہی ایسے دانشمندانہ ، دور اندیش اور عوامی خواہش کے عین مطابق فیصلے کر سکتی ہے۔ حکومتی فیصلے سے بھارت میں بھی صف ماتم بچھ گئی ہمارے دشمن کو بھی پاک فوج کے سینئر اور قابل افسران کی تقرری ہضم نہیں ہو رہی ہمارے کشمیری بھائیوں نے بھی اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا مقبوضہ کشمیر میں وزیراعظم شہباز شریف اورآرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزاکے پوسٹرزآویزاں کر دیئے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام اور حریت قیادت نے وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان کی نئی فوجی قیادت کو مبارک باد پیش کی۔ پوسٹرز پر کشمیر بنے گا پاکستان، کشمیر کی آزادی، مضبوط پاکستان کی ضرورت کے نعرے درج تھے۔کشمیری عوام نے وزیراعظم شہباز شریف ،نئے سپہ سالار جنرل عاصم منیر، جنرل ساحر شمشاد کو عوام کی طرف سے مبارکباد دیتے ہوئے فوجی سربراہوں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جس طرح یہ فیصلہ عوامی مقبولیت اور اطمینان کا باعث بنا ایسے ہی مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتوں سے عوام نے معاشی مسائل پر قابو پانے کی بھی امید باندھ لی ہے کہ وہ صرف اقتدار کی ہوس رکھنے والوں کو نظر انداز کر کے ملک کو ایک دفعہ پھر ترقی کی جانب گامزن کرینگے۔
پچھلے کچھ ماہ سے پی ٹی آئی نے احتجاجی سیاست کو اس قدر ہوا دے رکھی ہے کہ عدم برداشت کی فضا نے ہمارے معاشرے پر ڈیرے ڈال لئے ہیں تاجر ہوں یا ملازم پیشہ تمام مکاتب فکر کومعاش کی پریشانی لاحق ہے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو ہم ووٹ اس لئے دیتے ہیں کہ جب اس کا اپنا مفاد آئے تو وہ ہمارا سوچنے کی بجائے ہماری روزی روٹی کو بند کرنے پر تل جائے سیاست میں تو تحمل ،برداشت اور رواداری کو پروان چڑھانے کی بات کی جاتی تھی یہ آج ایسا کیا ہو گیا اور کون سی جماعت آ گئی جو کہتی ہے ہماری نہیں مانتے تو سب بند کر دو اگر یہ تبدیلی ہے تو ہمیں ایسی تبدیلی نہیں چاہیے جہاں آپ کو چار سال حکومت دی جائے جس میں ہمارے لئے کچھ نہ کر پائے اور جب آئینی طریقے سے حکومت سے نکلا جائے تو جلاﺅ گھیراﺅ کی جانب بڑھ جاﺅ ہماری نوجوان نسل جسے اس قدر گمراہ کر دیا گیا کہ وہ آج نہ صرف گلی ،محلوں اور سڑکوں پر دیگر سیاسی کارکنوں سے لڑتا جھگڑتا نظر آتا ہے بلکہ اپنے والدین اور عزیز واقارب سے بھی بدتمیزی پر اتر آیا ہے وجہ سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں بے روزگاری ہے اور اس بے روزگاری سے جڑے وہ مسائل ہیں آخر اس احتجاجی سیاست سے سوائے شرمندگی کے کیا حاصل ہوا ،راولپنڈی میں لاکھوں لوگ اکھٹے کرنے کا راگ الاپنے والے ملک بھر سے چند ہزار لوگ اکھٹے کر سکے اور اپنے فلاپ شو کے نتائج میں سوائے ہار کے کچھ بھی نہ لے جاسکے کھلے عام اس بات کی تصدیق خود ہی کر دی گئی کہ احتجاج تو لاحاصل مشق ہے آئینی اداروں کے ساتھ چلنے میں ہی سیاسی بقا ہے جہاں تک اسمبلیوںسے نکلنے کی بات ہے تو دوسری جانب مقابلہ منجھے ہوئے سینئر
سیاستدانوں سے ہے جن کو سیاست میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ بخوبی کرنا آتا ہے اور عوامی سوچ کے مطابق وقت سے پہلے انتخابات کا امکان معدوم ہو گیا ہے اور اس سیاسی ہار کا برملا اظہار بھی عوام کے سامنے آچکا ہے اب یہ انھوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ملک میں انتشار وفساد کی فضا ء بنانے میںناکام ہونے والی جماعت کسی بھی طرح ان کی حمایت کی حقدار ہے بلکہ ایسی جماعت کو سختی سے مسترد کرنے سے ہی آئندہ کسی کو اپنے سیاسی مفاد کیلئے ایسے عزائم کے استعمال کی جرت نہ ہو سکے گی۔ملک کا تاجر طبقہ انتشار کی سیاست سے بیزار ہے۔ ہم تعلیم‘ تجارت اور ملازمت پیشہ طبقوں کی طرف سے پی ٹی آئی کی قیادت سے دست بدست عرض گزار ہیں کہ وہ ملک و قوم کے وسیع مفاد میں احتجاجی سیاست سے تائب ہوں تاکہ لوگ یکسو ہو کر زندگی گزار سکیں
حنئی عسکری قیادت کا خوش آئند تقرر، احتجاجی سیاست اب کیوں
Nov 28, 2022