آصف علی زرداری کی جانب سے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے تھوڑی چھیڑچھاڑ کے بعد دوبئی میں باپ اور بیٹا بختاور بھٹو زرداری کے گھر مل چکے ہیں۔آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے مابین وہاں جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات سے ہم بے خبر ہیں۔ فقط ایک تصویر منظر عام پر آئی ہے جو فخر سے بیان کرتی ہے کہ باپ اور بیٹے کیلئے خاندان اور اس کی یکجہتی اولیں ترجیح کے حامل ہیں۔سیاست سمیت دیگر امور فروعی ہیں۔
دوبئی میں ہوئی ملاقاتوں کے بعد باپ بیٹا کے مابین ”اختلاف“ کی خبریں تو میڈیا سے غائب ہونا شروع ہوگئی ہیں۔بات کا بتنگڑ بناکر روز کی روٹی روز کمانے والے ”ذہن ساز“ مگر اب بھی اپنی تحریروں اور ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے نئی اور پرانی نسلوں کے مابین اختلاف کوبڑھاچڑھاکر پیش کررہے ہیں۔ان سے متاثر ہوکر میرے چند قارئین بھی مجھے اس حوالے سے جاری بحث میں حصہ لینے کو ا±کساتے رہے۔ اس ضمن میں لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جن لوگوں نے مجھے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے مذکورہ بحث میں شرکت کو ا±کسایا ان کی اکثریت نے اقبال کا وہ شعر بھی استعمال کیا جو ”جوانوں کو پیروں کا استاد کر“ کی تمنا باندھتا ہے۔اس شعر کو تواتر سے دہراتے ہوئے اس کے پہلے مصرعے پر توجہ نہیں دی جارہی جو ”خِرد“ یعنی دانش یا سوچ بچار کو بھی ”غلامی“ سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔ذرا غور کیا تو کم ا ز کم مجھے یہ گماں بھی ہوا کہ اقبال درحقیقت ان جوانوں کو پیروں کا استاد ہوا دیکھنا چاہتے تھے جن کی سوچ ”غلام“ نہیں۔
”غلامی“ اقبال کے دنوں میں برطانوی سامراج کے متعارف کردہ نظام سے وابستگی تصور ہوتی تھی۔ برصغیر پر قابض ہونے کے بعد انگریزوں نے ہمارے ماضی کو تہذیب سے عاری ٹھہراتے ہوئے ہمیں لارڈ میکالے کے تیار کردہ تعلیمی نظام کے ذریعے ”مہذب“ بنانے کا ذمہ اٹھایا۔ اس کے نتیجے میں اشرافیہ کا ایک خاص طبقہ سرکاری سرپرستی میں ”قائدانہ کردار“ کے لئے تیار کیا گیا۔پنجاب میں یہ طبقہ ” یونینسٹ پارٹی“ میں جمع ہوگیا جسے ان دنوں کی نئی نسل حقارت سے ”ٹوڈی(Toady)“یعنی سامراج کے چمچے یا آلہ کار پکارتی تھی۔ جاگیردار گھرانوں سے اٹھی اس قیادت کے رویے کو اقبال ”خوئے غلامی“ بھی پکارتے تھے۔
انگریز کے متعارف کردہ نظام کی مذمت ہمیں اس حقیقت سے مگر غافل بھی نہیں رکھ سکتی کہ اقبال بذات خود کسی جاگیردار گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کے والد بنیادی طورپر بے زمین ہنر مند تھے جو سیالکوٹ کے خوشحال اور مسلم گھرانوں کی خواتین کے برقعوں کےلئے ٹوپیاں تیار کرتے تھے۔یہ کام انہماک اور لگن سے اپنائے ہنر کا طلب گار تھا۔نسبتاََ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اقبال اپنی ذہانت کے بل بوتے پر اپنے زمانے کی اشرافیہ کے لئے مختص اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ان اداروں ہی نے انہیں بیرسٹری کے علاوہ جرمنی سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کے قابل بنایا اور انہیں ”سر“ کا خطاب دیتے ہوئے انگریزوں نے اپنے نظام پر فخر ہی محسوس کیا ہوگا۔
اقبال کا جھگڑا فقط اپنے دور کی پرانی نسل سے نہیں تھا۔ ”ستاروں پر کمند“ ڈالنے کے خواہاں نوجوانوں سے محبت کے باوجود اقبال کا اصل د±کھ یہ تھا کہ برطانوی استعمار نے نہایت ہوشیاری سے اس خطے کو اس کے تہذیبی ورثے سے محروم کردیا تھا۔ اسی باعث وہ ”بھٹکے ہوئے راہی کو سوئے حرم“ لے جانے کی د±عا مانگنے کے علاوہ مولانا روم کی شعری وراثت زندہ رکھنے کے خواہش مند تھے۔ خوئے غلامی سے نجات کے لئے وہ ”مردِ کوہستانی“ سے مختص جفاکشی کی تمنا رکھتے تھے اور مذکورہ تناظر میں انہوں نے پشتو کے عظیم شاعر خوشحال خٹک کو اردو اور فارسی شاعری کے دلدادہ افراد کے لئے ایک حوالے سے گویا ”دریافت“ ہی کیا تھا۔
اقبال جیسی کثیر الجہت شخصیت کا جائزہ مگر اس کالم کا موضوع نہیں۔چاہوں بھی تو اردو اور فارسی شاعری کے بے پناہ ورثہ سے نآشنائی کی وجہ سے اس کی بابت قلم اٹھانے کی جرات سے محروم ہوں۔عرض فقط یہ گزارنا ہے کہ اقبال جوانوں کو پیروں کا استاد بنانے سے کہیں زیادہ اس امر کے خواہش مند تھے کہ ہم اندھی تقلید میں گرفتار نہ ہوں۔ قوم کو درپیش مسائل پر کھلے ذہن سے غور کریں۔ ”نظام کہنہ“ کی مسلط کردہ سوچ پر سوالات اٹھاتے ہوئے ”نئے راستے“ تلاش کریں۔
”جوانوں کو پیروں کا استاد“ والے شعر کی جو توجیہہ میرے ذہن میں آئی ہے اس پر غور کروں تو آج کے جوانوں کو اپنا پیر بنانے سے واقعتا خوف آتا ہے۔یہ جوان سوشل میڈیا کو علت کی طرح اپنا چکے ہیں۔ یہ کہنے کے بعد یاد یہ بھی دلانا چاہوں گا کہ سوشل میڈیا کی ایجاد بھی مشرق میں نہیں بلکہ مغرب میں ہوئی تھی۔ اس میڈیا کی مبادیات اور کلیدی اصولوں کے بارے میں اب سوسے زیادہ مستند کتابیں جاں گسل تحقیق کے بعد لکھی جاچکی ہیں۔ان تمام کتابوں کا یک سطری نچوڑ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم خواہ وہ ٹویٹر ہو یا فیس بک ،انسٹا گرام ہو یا ٹک ٹاک ”نظام کہنہ“ کو تضحیک کا نشانہ تو بناتے ہیں مگر اس کا متبادل فراہم نہیں کرتے۔ ان کی بدولت ”ورثے میں ملے نظام“ کے خلاف جو نفرت بھڑکائی جاتی ہے وہ معاشرے کو کامل انتشار سے دو چار رکھتی ہے اور بدقسمتی سے سوشل میڈیا کی بدولت پھیلایا انتشار ریاست کو اپنی جابرانہ قوت کے بے دریغ استعمال سے ”معاشرے میں امن وسکون بحال“ کرنے کا جواز فراہم کردیتا ہے۔ 2010میں نمودار ہوئی نام نہاد ”عرب بہار“ کے انجام کی تحقیق زینب توفیق نے ”آنسو گیس اور ٹویٹر“ نام کی کتاب میں تفصیل سے پیش کررکھی ہے۔
حال ہی میں امریکہ کے ایک متحرک رپورٹر اور مختلف ممالک میں تعیناتی کی بدولت سیاسی تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھنے کے بعد کتابیں لکھنے والے ونسٹ بیونز( Bevins Vincent)کی ایک کتاب بھی منظرعام پر آئی ہے۔اس نے بھی مصر اوربرازیل جیسے ملکوں کے نوجوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر چلائی تحاریک کا جائزہ لیا ہے۔نتیجہ یہ ہی نکالا کہ سوشل میڈیا پاکستان جیسے ملکوں میں صحافیوں کو ”لفافہ“ اور سیاستدان کو ”بدعنوان“ ثابت کرتے ہوئے انہیں معاشرے کی ”رہ نمائی“ کے قابل نہیں چھوڑتا۔ نوجوانوں کے ہاتھوں اپنی بھد اڑانے کے بعد پاکستان جیسے معاشروں میں سوچنے سمجھنے والوں کی اکثریت اپنی ”عزت“ بچانے کے خوف سے گوشہ نشین ہوجاتی ہے۔ ان کی گوشہ نشینی ریاست کو ”جبری ہتھکنڈوں“ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی تنقید سے محفوظ بنادیتی ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا کی بدولت اٹھائے ”انقلابی طوفان“ کا قلع قمع کردیتی ہے۔ مصر میں ”عرب بہار“ کا انجام ایسے ہی ہوا تھا اور ہمارے ہاں بھی ”9مئی“ ہوچکا ہے۔”جوان“ اس کے بعد مجھ جیسے بابوں کے ”پیر“ بننے کے بجائے خود کو جیل جانے سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
کہنہ" کا متبادل؟۔
Nov 28, 2023