پاکستان کی ترقی کے لیے کامونکی سے عبدالعلیم خان کا پیغام!!!!!

خبریں بہت ہیں، انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں، کیا انتخابات کے انعقاد میں ایک مرتبہ پھر تاخیر ہو سکتی ہے، کون سی سیاسی جماعتیں کس حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں جائیں گی، کیا نو مئی کے افسوسناک اور دلخراش واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی وہ قیادت جس نے ملکی دفاع کے ضامن اداروں کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے نشانہ بنایا، وہ قیادت جس نے جانے انجانے میں ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کیا، وہ لوگ جنہوں نے بہت کچھ جانتے ہوئے بھی حقائق پر چلنے اور سچ عوام تک لانے کے بجائے سیاسی مفادات کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جس سے ملک میں انتشار پھیلا، بدامنی پھیلی، نفرت پھیلی، نوجوان نسل کے ذہنوں میں ریاست کے لیے منفی جذبات ابھرے، وہ معصوم لوگ جو سیاست دانوں کی گندی سیاست کی بھینٹ چڑھے۔ کیا وہ لوگ بھی اپنی تمام تر سازشوں، ناکامیوں اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے باوجود انتخابی عمل کا حصہ ہوں گے۔ کیا تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جیسے حالات ملیں گے۔ یعنی لیول پلینگ فیلڈ کا تقاضا کرنے والے کسی دوسرے کے لیے بھی ایسی ہی لیول پکینگ فیلڈ کا مطالبہ کریں گے یا سب صرف یہ انتظار کرتے رہیں گے کہ کب انہیں ضرورت سے زیادہ اور ایسی حمایت حاصل ہو جائے جو انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دے۔ ایسی ہی گفتگو اور بحث ان دنوں سیاسی حلقوں میں ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہماری سیاسی جماعتوں کی سوچ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوئی ہے۔ کہا واقعی سیاسی قیادت ملک کے مسائل حل کرنے اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے میں سنجیدہ ہے۔ کیا واقعی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں ملک کے بنیادی مسائل حل کرنے کے حوالے سے سنجیدہ سوچ پائی جاتی ہے۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا کیونکہ آج بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت نے ایک دوسرے کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور آج بھی دونوں جماعتوں کی اعلی قیادت کا زیادہ وقت بیانات جاری کرنے اور ان کا جواب دینے میں ضائع ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اگر یہ حکومت سازی کہ طرف جاتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہوئے عوام کو کیا پیغام دیں گے۔ سو یہ وہ باتیں ہیں جو عام آدمی کہ تکلیف میں اضافہ کرتی ہیں حالانکہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں لگ بھگ گذشتہ چار دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ رہی ہیں۔ مفادات اور تیری باری میری باری کی سیاست کے دوران استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان مسلسل ناصرف عام آدمی کے مسائل پر بات کر رہے ہیں بلکہ وہ ان سیاسی جماعتوں کی باریوں کی سیاست کو بھی عوام کے سامنے رکھتے ہوئے اپنا پیغام پاکستانیوں تک پہنچا رہے ہیں۔ عبدالعلیم خان کا پیغام ہی ترقی کا پیغام ہے، اپنے لوگوں کی حالت بدلنے کا پیغام ہے، اپنے لوگوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کا پیغام ہے، استحکام کا پیغام ہے، طرز زندگی کو بہتر بنانے کا پیغام ہے، عام آدمی کو سہولیات پہنچانے کا پیغام ہے۔ پاکستان کے لوگوں کا ایک مسئلہ شخصیت پرستی ہے اگر وہ شخصیت پرستی سے نکل کر آئندہ عام انتخابات کو منشور اور قابل عمل وعدوں کی جانچ پڑتال کے بعد ووٹ کی طرف جائیں تو انہیں استحکام پاکستان پارٹی، عبدالعلیم خان اور ان کے ساتھیوں کے پیغام پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ عبدالعلیم خان اکیلے نہیں ان کے ساتھ وہ لوگ اس جماعت کا حصہ ہیں جو برسوں سے اپنے کاروبار، تعمیری منصوبوں اور فلاحی کاموں کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ یوں عبدالعلیم خان اور ان کے ساتھیوں کے لیے ملکی سطح پر تعمیر و ترقی کے منصوبے کچھ نئے نہیں ہوں گے۔ چونکہ یہ تجربہ کار لوگ ہیں۔ ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں اس لیے جہاں بھی جا رہے ہیں عام آدمی کے مسائل کو بنیاد بنا کر قوم کو تعمیر کا پیغام دے رہے ہیں۔ کامونکی سے ایک مرتبہ پھر عبدالعلیم خان نے تعمیر و ترقی کا ایجنڈا اپنے لوگوں کے سامنے رکھا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر کہتے ہیں کہ "اس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں صرف نیک نیت لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ لاہور جیسے شہر میں تعلیم اور صحت کی سہولیات نہیں۔ آج قائداعظم محمد علی جناح ہوتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ گزشتہ حکمرانوں نے اسلام اور ریاست مدینہ کے نام پر جو کیا سب کے سامنے ہے، خدا کے لئے مدینہ کی ریاست کے نام پر یہ سب کچھ نہ کریں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے منشور پر عمل درآمد کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ عام آدمی کو تین سو یونٹ مفت بجلی، موٹر سائیکل سواروں کو آدھی قیمت پر پٹرول کی فراہمی اور کسانوں کو مفت سولر ٹیوب ویل دینے کے لئے امیروں سے وسائل لیں گے اور ان کا رخ وسائل سے محروم افراد کی طرف کریں گے۔ کامونکی کے لوگوں سے وعدہ کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے کہا کہ کامونکی میں انٹر چینج بنے گا، کارڈیالوجی اور کڈنی ہسپتال بنائیں گے، اسے ماڈل سٹی بنائیں گے۔" 
عبدالعلیم خان جو کہہ رہے یا ان کی جماعت کی قیادت جو وعدے کر رہی ہے وہ اسے نبھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ مختلف انتخابات میں انہوں نے اپنے حلقوں میں بہت کام کیا ہے، مختلف ادارے بنائے انہیں کامیاب کیا اور ذاتی حیثیت میں فلاحی کاموں کے بعد یہی تجربہ ملکی سطح پر بھی کام آئے گا۔ پاکستان کے بنیادی مسائل کی وجہ دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور پاکستان میں سیاست کے نام بدتہذیبی اور جھوٹ کو انتہا پر پہنچانے، اختلاف رائے رکھنے والے کو چور ڈاکو اور ملک دشمن قرار دینے اور اس پر بضد رہنے کی سوچ کو پاکستان تحریک انصاف نے پروان چڑھایا ہے اور آج اگر ملک میں سیاسی عدم برداشت انتہا پر ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کے گذرے دس سے بارہ برس ہیں۔ اس عرصے میں پاکستان کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں پاکستان تحریک انصاف کے قائد کی سوچ سب سے بڑی وجہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ملک کو اس مشکل سے نکلنا ہے تو پھر ہمیں شخصیت پرستی کے بجائے ماضی اور مختلف تعمیری و فلاحی شعبوں میں کارکردگی کو بنیاد بنا کر ووٹ دینے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اس معاملے میں استحکام پاکستان پارٹی اس کی قیادت، عبدالعلیم خان اور ان کے تمام ساتھیوں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ یہ لوگ ملک کا درد رکھتے ہیں تجربہ کار ہیں۔ مختلف اداروں کو کامیابی سے چلا چکے ہیں۔ عبدالعلیم خان میں صلاحیت ہے کہ جو یہ کہہ رہے ہیں وہ کر سکتے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات صرف سیاسی قیادت کا ہی امتحان نہیں بلکہ ووٹرز کا بھی امتحان ہے۔ ووٹرز جذباتی اور حقائق کے منافی بیانیے کی جھکتے ہیں یا ہھر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے غور و فکر سے کام لیتے ہوئے ووٹ ڈالتے ہیں۔
آخر میں ناصر کاظمی کا کلام
نئے کپڑے بدل کر جاو¿ں کہاں اور بال بناو¿ں کس کے لیے 
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاو¿ں کس کے لیے 
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی 
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاو¿ں کس کے لیے 
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا 
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاو¿ں کس کے لیے 
اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں 
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاو¿ں کس کے لیے 
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا 
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاو¿ں کس کے لیے

ای پیپر دی نیشن