بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
سعادتوں ،رفعتوں اور سر فرازیوں کے خمیر سے گوندھے ہوئے پیکر میں نمود ار ہونے والی جگر گوشہ رسولؐ کا اسمِ گرامی بی بی فاطمتہ الزہرا ؓ تھا۔ اس گوہر نایاب کو سر کار دو جہاں ؐکی تر بیت اور حضرت خدیجتہ الکبرٰیؓ کی پرورش نے چار چاند لگا دئیے۔آپ کی ولادت باسعادت 20جماد ی الثانی کو اْس زمانے میں ہوئی جب پر دوں کو آگ لگنے سے خانہ کعبہ جل گیا تھا اور مکہ کے لوگ مالِ حلال سے اْسے نئے سرے سے تعمیر کر رہے تھے جسمیں حضور پاک کی ذاتِ گرامی بھی شریک تھی اور ابھی نبوت ملنے میں پانچ سال باقی تھے۔سیّدہ فاطمتہ الزہرا حضور پاک کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔آپ کی بڑی بہنوںکے اسم ِگرامی حضرت زینب ،حضرت رقعیہ اور حضرت اْمِ کلثوم تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت کے وقت نبی اکرمؐ کی عمر مبارک 35 سال سے کچھ زیادہ تھی۔جب جگر گوشہء رسول کی عمر پانچ سال تھی حضورپاک ؐکو نبوت عطا ہوئی۔حضوراکرم ؐسے ہر مسلمان کی محبت ہونا ایک فطری عمل ہے اور اوّلین فرض بھی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ جس دل میں حْبِ رسولؐ نہ ہو وہ مسلمان کیسے ہوسکتا ہے لیکن سیّدہ فاطمتہ الزہرا کو اپنے شفیق باپ سے ایسی والہانہ محبت تھی کہ اْسکی مثال ملنا مشکل ہے۔
جب آپ کی عمر 14 برس ہوئی تو آپ کی والدہ حضرت خدیجتہ الکبرٰی کا انتقال ہوگیا اور اْس کے تقریباً3سال بعد ہجرت مدینہ ہوئی۔مدینہ پہنچ کر جب حضور پاک ؐنے اپنے اہل خانہ کو مدینہ بلوایا تو اْن میں حضرت فاطمہ بھی شامل تھیں۔شادی :۔مدینہ پہنچنے کے دوسرے سال حضر ت علی رشتہ مانگنے کی غرض سے حضور پاک ؐکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے مگر شانِ نبوت او راحترامِ رسالت کا خیال کرتے ہوئے دل کی بات زبان پرنہ لاسکے۔چنانچہ آپ نے خودہی نہایت شفقت سے اْن کا مدعا پوچھتے ہوئے فرمایا''کیا فاطمہ ؓ کے رشتے کی خاطر آئے ہو؟''حضرت علی ؓ نے ہاں میں جواب عرض کیا۔مَہر کی ادائیگی کے بارے میں جب رسالت مآب ?نے پوچھا تو عرض کیا صرف ایک گھوڑا اور ایک زرّہ ہے۔حضور پاک نے فرمایا ''گھوڑا توسواری کے کام آئے گا البتہ زرّہ بیچ ڈالو۔حضرت انس کی معرفت حضرت ابوبکر ،حضرت عمر ،حضرت طلحہ اور حضر ت زبیرؓ کو بلوایا اور چند دوسرے صحابہ کرام کی موجودگی میں نکاح ہوا۔نکاح کا خطبہ آپؐنے ارشاد فرمایا۔چار سو مثقال چاندی مہر مقرر ہوا اور حاضرین میں چھوہارے تقسیم کئے گئے۔سرکارِ دو جہاں ؐنے اپنی چہیتی بیٹی کو جہیز میں ایک چار پائی ،ایک تکیہ دو مشکیزے اور ایک چکی عطا فرمائی۔اس موقع پر آپ ؐنے اپنی لختِ جگر کو مخاطب کرکے فرمایا ''میں نے تمہاری شادی ایک ایسے شخص سے کردی ہے جو دْنیا میں بھی سردار ہے اور آخرت میں بھی۔ اے دْختر نیک اختر دْنیا میں بے سامان رہ کر گزار دو پھر آخرت میں تم جنت کی عورتوں کی سردار ہوگی۔ ''۔ نکاح کے دنوں میں حضور پاک ؐحضرت ایوب انصاری کے ہاںقیام پذیر تھے۔حضرت حارثہ بن نعمان نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! حضرت علیؓ او رحضرت فاطمہؓ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ میرا ایک مکان اْن کیلئے حاضر ہے آپؐ نے خوش ہوکر اْن کیلئے دْعا فرمائی چنانچہ حضرت علی نے علیحدہ مکان لے کر اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔
لاکھوں درود وسلام ہوں سچے نبی ؐپرجو اپنے اہلِ خانہ اور عزیز و اقار ب کیلئے بھی وہ پسند کرتے تھے جو دوسروں کیلئے کرتے تھے۔گوکہ اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت تھی اور دنیاوی محنت سے بچانے کیلئے اسباب بھی موجود تھے مگر اس دْنیا میں دکھ درد جھیلنا ہی بھلائی کا سبب خیال فرمایا۔حضور پاکؐ کو اپنی پیاری بیٹی سے اس قدر پیار تھا کہ جب کہیں باہر جانے کا ارادہ فرماتے تو اْن سے مل کرجاتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے اپنے جگر گوشہ سے آکر ملتے اور جب حضرت فاطمہ ملنے جاتیں تو اْنہیں محبت اور شفقت سے اپنے پاس بٹھاتے اورآپ کو کبھی تھوڑا سابھی رنجیدہ حالت میں دیکھنا گوارانہ کرتے تھے۔ایک دفعہ عرض کیا یارسول اللہ ؐ!آپ کو میرے بیٹوں میں کس سے زیادہ محبت ہے ؟فرمایا!'' حسن اور حسین دونوں سے اور اے فاطمہ ! تم،تمہارے خاوند علی اور تمہارے بچے میرے ساتھ جنت میں ہوں گے ''۔
''۔اس قدر محبت کے باوجود فرمایا ''کہ بغیر عمل ، جذبہء اطاعت اور اللہ کی رحمت کے محض سفارش کام نہ آئیگی اور فرمایا کہ ''اْس کے در سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ لوٹا''۔سبحان اللہ دو جہان کے سردار کی بیٹی کس طرح گذارہ کرتی تھیں۔جب بھی اور جہاں بھی تقویٰ ،پرہیز گاری ،پاکدامنی ،شرم وحیا ،صبروشکر کا ذکر آئے گا تو جگر گوشہ ء رسولؐ سیّدہ طاہرہ ،خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا کا اسمِ گرامی سر فہرست ہوگا۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورپاکؐ کے وصال سے چند دن پیشتر جب حضرت فاطمتہ لزہرا ملنے آئیں تو حضورؐنے پیار سے اْن کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کان میں کچھ فرمایا۔سْن کر پہلے روئیں اور پھر مسکرادیں۔جب اْن سے پوچھا تو فرمانے لگیں کہ حضورؐنے جب وہ بات چھپا کر رکھی تو میں کیسے افشاں کر سکتی ہوں حضورپاکؐ کے وصال کے بعدسیّدہ فاطمہ نے رونے اور مسکرانے کی وجہ یوں بتائی آپ نے فرمایا تھا کہ جبرائیل مجھ سے ہمیشہ رمضان میں ایک مرتبہ قرآن مجید کادورہ کیا کرتے تھے اس سال دو مرتبہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میرے وصال کا وقت قریب آگیا ہے یہ سْن کر جب میںرو پڑی تو آپ ?نے فرمایا ''کہ دیکھوسب رشتہ داروں سے پہلے تم مجھ سے جنت میں جا کر ملوگی اور تم جنت کی سردار ہو ںگی ''یہ سْن کر میں بے حد خوش ہوئی اورہنسنے لگی تھی۔کو ن ہے جو حضور پاکؐ کے وصال کے غم سے بے تاب نہ ہوا ہوگا۔مگر شفیق باپ کا سایہ اْٹھ جانے سے سیّدہ فاطمہ کیلئے زندہ رہنا محال ہوگیا۔دْنیا کی طرف سے دل سرد ہوگیا۔زندگی وبالِ نظر آنے لگ گئی۔آپ? کے بعد ایک بار بھی نہ مسکرائیں اوربیمار ہوگئیں۔ ہجرت کے گیارھویں سال 28 سال اور کچھ ماہ کی عمر میں 13جمادی الائول کو حضور پاک ؐکے فرمان کے مطابق دوسرے رشتہ داروں میں سے پہلے اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔حضرت بی بی اسما ء کے مشورے سے وصیت کے مطابق اْن کے جنازے پر خاص طریقہ سے پردہ ڈالیا گیا اوررا ت کے وقت جنت البقیع کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔آپ کی نماز جنازہ حضرت علی نے پڑھائی، وفات سے مسلمانوں کو بے حد صدمہ ہوا کیونکہ حضورپاکؐکے بعدآپ کو اپنے درمیان وسیلہ نجات اور آپ ؐ کی باعثِ برکت نشانی سمجھتے تھے۔