امر اجالا…اصغر علی شاد
Shad_asghar@yahoo.com
غیر جانبدار ماہرین کے مطابق اس امر میں تو شائد ہی کسی کو کوئی شبہ ہو کہ دور حاضر میں ہر قسم کی ٹیکنالوجی نے بے پناہ ترقی کی ہے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ٹیکنالوجی اپنے آپ کو منوا رہی ہو۔اسی ضمن میں 5gکی صورتحال بھی مختلف نہیں مگر بد قسمتی سے وطن عزیزمیں تا حال اس ضمن میں خاطر خواہ ترقی نہیں ہو پائی جس کی غالبا سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بات پر عدالتوں سے التوا لے لیا جاتا ہے اور یہ معاملہ ایک رجحان کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے نتیجے میں ایک جانب زیر التوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری جانب اکثر شعبوں ترقی کی رفتار کو بریک لگے ہوئے ہیں۔ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ 5gپر لگی پابندی کو فوری طور پر اٹھایا جائے گا تاکہ ملک و قوم ترقی کی راہ پر خاطر خواہ ڈھنگ سے گامزن ہو سکے۔یہ توقع رکھنی بھی بیجا نہ ہوگی کہ اس ضمن میں عدالتوں سمیت معاشرے کے سبھی طبقات اپنا کر دار نبھائیں گے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنی Qualcomm کے مطابق اگلی دہائی کے دوران 5G ٹیکنالوجی سے دنیا میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ نوکریاں اور 12 کھرب ڈالر سے زیادہ کا کاروبار عمل میں آئے گا۔اس ضمن میں یاد رہے کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ آئی ٹی اور فری لانسنگ کے ذریعے سالانہ کروڑوں ڈالر کماتے ہیں یوں5G پر منتقلی اس شعبے میں انقلاب کے مترادف ہے۔ماہرین کے مطابق آئی ٹی منسٹر کی جانب سے 5G سپیکرٹرم پر ہائی لیول کمیٹی کی تشکیل خوش آیند قدم تو ہے لیکن پہلے پاکستان کو کچھ رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں 5G کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ شائد سندھ سے آئی ہے۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق کراچی کی بعض بڑی کاروباری شخصیات اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پاکستانی قوم کو اربوں ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں وکلااور اس کارباری شخصیت کی ملی بھگت سے پاکستانی معیشت اربوں ڈالر کے کاروباری مواقع سے مسلسل محروم ہو رہی ہے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ پاکستان فری لانسنگ یعنی آن لائن نوکریوں میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہونے کے باوجود 5G ٹیکنالوجی سے محروم ہے حالانکہ اس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹس 2.6 ارب ڈالر سے دس ارب ڈالر تک جا سکتی ہیں لیکن سندھ کی عدلیہ کے چند جج صاحبان کب تک قومی مفاد کی بجائے چند افراد کے ذاتی مفاد کی سرپرستی کرتے رہیں گے۔یہ امر باعث تشویش ہے کہ تمام قوانین کی موجودگی کے باوجود 25 سال سے فیصلہ نہ آنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس صورتحال میں عام لوگ یہ سوال پو چھنے پر حق بجانب ہیں کہ کیا ایسے تاخیری حربوں سے بزنس ٹائیکون کے مفاد کی آبیاری کی جارہی ہے؟اس تناظر میں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ہمسائیہ ملک بھارت میں بھی وہاں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دور حکومت میں ٹیکنالوجی5gکو آگے بڑھانے میں کافی رکاوٹوں کا سامنا کر نا پڑا تھا مگر بعد میں وہاں پر اس معاملے کو کسی حد تک خوش اسلوبی سے ؤحل کر لیا گیا تھا ایسے میں یہ امید رکھنی بے جا نہ ہوگی کہ وطن عزیز میں بھی سبھی رکاوٹوں کو احسن ڈھنگ سے دور کر لیا جائے گاؤتاکہ کروڑوں لوگوں کے روزگار متا ثر نہ ہوں۔