باکمال لوگ، لاجواب سروس۔۔۔مگر؟

گلوبل ویلج:مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کی قومی ایئر لائن ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ‘‘ کبھی بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتی تھی کہ ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘جوانی میں ہم بھی اس پر فخر کیا کرتے تھے اور کبھی کسی اور ایئرلائنز میں سفر کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔ آج کل اس کی کیا حالت ہو چکی ہے، زبوں حالی کی کس منز ل پر پاکستان کی قومی ایئرلائنز پہنچ چکی ہے۔وہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے بلکہ کبھی تو سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جان ایف کینیڈی کی اہلیہ ،امریکہ کی خاتون اوّل جیکولین کینیڈی نے ایک مرتبہ پی آئی اے کے ذریعے امریکہ سے پاکستان کا سفر کیا تھا۔ وہ پی آئی اے کی سروس سے اتنا زیادہ متاثر ہوئیں کہ واپسی پر ان کی طرف سے باقاعدہ کہا گیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پاکستان ایئر لائنز سے بہتر کوئی ایئر لائنز نہیں دیکھی۔ اس پر پی آئی اے تو کیا کوئی بھی پاکستانی جتنا فخر کر سکتا تھا ، وہ کم ہے۔ ان دنوں پوری دنیا میں امریکہ کے نوجوان اور خوبرو صدر کا طوطی بولتا تھا۔ خاتون اول کے پی آئی اے کی حمایت میں یہ الفاظ پی آئی اے کو پوری دنیا میں منفرد بنا گئے۔ اس کے بعد سے پی آئی اے نے جہاں بھی پی آئی اے کا سلوگن چھاپا تو نیچے یہ ضرور لکھا Great People to Fly with“?
جب دنیا کی مختلف ایئر لائنز کی عروج و زوال کی داستانیں پڑھتے یا سنتے ہیں تو ہمیں اِمارات ایئر لائنزاور ملائیشین ایئر لائنز کو نہیں بھلا سکتے۔ویسے تو اور بھی بہترین ایئر لائنز موجود ہیں لیکن ان دو کا ذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ ان دونوں ایئرلائنز کی تخلیق میں پی آئی اے اور اس کے پالیسی سازوں اور ٹیکنیکل اسٹاف نے کلیدی کردار ادا کیاتھا یا یوں سمجھیے کہ مذکورہ دونوں ایئر لائنز پی آئی اے کے لے پالک بچے ہیں۔اِمارات ایئر لائنز کو پاکستان نے 1988ء میں دو مسافر طیارے دیئے تھے ،ساتھ عملہ بھی مستعار دیا تھا۔اس عملے کو اور جہازوں کو جس طریقے سے متحدہ عرب امارات کی طرف سے یوٹلائز کیا گیا وہ دنیا میں ایک بہت بڑی مثال ہے۔ آج اِمارات اور ملائیشین ایئر لائنز کے طیاروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے جبکہ پوری دنیا کی ٹریولنگ اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر ان دونوں ایئر لائنز کا راج ہے لیکن پاکستان جس نے دنیا کی یہ دو بہترین ایئر لائنز کھڑی کیں ،ان کی بنیاد رکھی اس کی کیا حالت ہو گئی۔ وہ دنیا کے سامنے ہے۔
 اب پی آئی اے کہیں ہے کہ کہیں نہیں ہے، ایسا ہی نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایسی پستی میں پاکستان ایئر لائنز کیسے گِر گئی۔اور یہ دن بھی قسمت نے ہمیں دکھانے تھے کہ گذشتہ دنوں پی آئی اے کی کولالمپور جانے والی پرواز کو ٹیک آف سے پہلے عدم ادائیگی کی بنا پر روک لیا گیا۔اور بعدازاں سفارتی مداخلت اور ادائیگی کی ضمانت پر پی آئی اے کے طیارے کو ٹیک آف کی اجازت دی گئی۔ چند روز قبل ٹورنٹو ،کینیڈا کے ایئر پورٹ پر پی آئی اے کی فلائیٹ کو عین ٹیک آف کے وقت روک لیا گیا اور بعدازاں وجوہات یہ بتائی گئی کہ پی آئی اے کافی دنوں سے پٹرولیم کا بِل ادا کرنے سے قاصر تھی،لہٰذا اس فلائیٹ کو بھی دو لاکھ پچاس ہزار ڈالرز کی ادائیگی ضمانت پر ٹیک آف کرنے دیا گیااور جب یہ خبروائرل ہوئی تو پاکستانیوں کے سر شرم اوربے عزتی سے جھک گئے۔لیکن پاکستان کی حکومت اور پی آئی اے کے زعما کو بھلا اس سے کیا غرض ؟
(قارئین چند ہفتے قبل میرا ایک انتہائی اہم کام کے سلسلے میں پاکستان آنا ہوا۔یقینا میرا پہلا ہی انتخاب پی آئی اے کی فلائیٹ تھی اور میں آپ کو یہاں پریہ بھی بتاتا چلوں کہ گذشتہ چالیس سال سے میں پی آئی اے اور دنیا کی تمام بہترین ایئر لائنز سے سفر کرتا رہا ہوں اور اگر کسی ایئرپورٹ سے پی آئی اے کی فلائیٹ دستیاب ہو میں پی آئی اے کا ہی انتخاب کرتا ہوں۔(حالانکہ اکثر اوقات پی آئی اے کے مقابلے میں دوسری بہتر ایئر لائنز زیادہ سستی اور معیاری ہوتی ہیں۔)
خصوصی طور پر موجودہ حالات میں امریکہ اور کینیڈا سے پاکستانی پی آئی اے کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ ان کے بوڑھے والدین، فیملی اور بچوں کو نیویارک اور ٹورنٹو سے پی آئی اے کی نان سٹاپ فلائٹ دستیاب ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مسافر حضرات چند سفری سہولیات کونظرانداز کرکے بھی پی آئی اے کاانتخاب کرتے ہیں۔
قارئین! ٹورنٹو اور نیویارک سے پی آئی اے کی نان سٹاپ فلائٹ ساڑھے تیرہ گھنٹے پر محیط ہے۔ پی آئی اے اس دوران لنچ،ڈنر پیش کرتی ہے جو کہ اکثر ایئر لائنز سے مقابلتاً غیرمعیاری اور مسافر کی توقعات کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔جس روز میں نے پاکستان سے واپسی کا سفر کیا، پی آئی اے نے میری فضائی سفر کی تاریخ میں یہ انتہائی غیر معیاری ،غیر مناسب کھانا تھا جس سے ’’باس‘‘ اٹھ رہی تھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ میرے سمیت تقریباً سبھی مسافروں نے یہ کھانا واپس کیا لیکن جب چند گھنٹوں بعد لنچ سرو کیا گیا تو یقین کریں کہ پھر وہی کھانا مسافروں کے سامنے ڈال دیا گیا۔
قارئین! ایئر لائنز انڈسٹری آج صرف سفری سہولیات ہی مہیا نہیں کرتیں بلکہ یہ ایک پوری ہوٹلنگ ،انٹرٹینمنٹ اور ٹورازم انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ایئر لائنز اسے ایک مشن سمجھ کر ہینڈل کرتے ہیں اور یہ ٹورازم انڈسٹری اکثر ممالک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہی ہے۔اسی طرح اس میں کام کرنے والے ورکرز ،زمینی اور فضائی عملہ اس ملک کا وزٹنگ کارڈ تصور ہوتے ہیں۔لیکن جب آپ پی آئی اے میں سفر کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے چودہ پندرہ گھنٹے کے لیے ایک نصیحت گھر میں کلاس لے رکھی ہے جہاں بات بات پر عمر رسیدہ فضائی میزبان آپ کو جھڑکتے ،ڈانٹ پلاتے اور نصیحتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اگر پاکستان کو اس قومی ایئر لائنز اور اثاثے کو بچانا ہے تو میری طرف سے ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ پی آئی اے کے کم ا زکم فضائی میزبانوں اور عملے کو دس سا ل کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے اور اس کے بعد اگر ایئر لائنز کو ضرورت اور گنجائش ہو تو وہ ان کنٹریکٹ ملازمین میں سے کچھ کو ایئر لائنز کے گرائونڈ سٹاف میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔یا یوں سمجھیے کہ پی آئی اے کوئی ایسا ادارہ نہیں جہاں استانیاں اور ماسٹرز بھرتی کرکے پرائمری سکول چلا یا جائے اور ایک کامیاب انڈسٹری بننے کے لیے پی آئی اے کو سفارشوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ معیار اور سروس کو مدنظر رکھتے ہوئے عملے کا چنا? کرنا چاہیے۔میرے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ کم از کم پی آئی اے میں گھر کا ماحول تو ملتا ہے تو میرے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ موصوف کو گھر میں بھابھی سے ضرور جھڑکیں پڑتی ہوں گی۔مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے کہ چند دوست کھانے کے لیے ریسٹورانٹ کی تلاش میں تھے کہ ایک ریسٹورانٹ پر لکھا تھا ’’گھر سے باہر گھر جیسا ماحول‘‘تو ایک دوست کہنے لگا چلو یہیں پر چلتے ہیں تو ان میں سے دوسرا دوست بولا بھئی اگر ہم نے گھر کا ہی کھانا ہے تو ہم اتنی دیر سے ریسٹورانٹ کیوں ڈھونڈ رہے ہیں۔
باقی فلائٹس انٹرٹینمٹ وہ بھی انتہائی زیادہ قابل رحم ہے اور قارئین دوران پرواز ہر سیٹ پر لگا ٹی وی سکرین میری اطلاع کے مطابق پچھلے تین سال سے بند جا رہے ہیں۔ آپ چودہ گھنٹے کی پرواز کے دوران صرف ساتھی مسافروں کے چہرے دیکھیں یا پھر دوران پرواز معصوم اور کم سن بچوں کی بآواز بلند رونے کی آوازیں سنیں۔کیونکہ ان حالات میں سو تو آپ سکتے نہیں ،مکھیاں بھی اس لیے نہیں مار سکتے کہ جہاز میں مکھیاں نہیں ہوتیں البتہ کبھی کبھار کوئی چوہا اور کاکروچ نظر آ جاتے ہیں۔میری پی آئی اے کے چیئرمین ،حکام بالا اور سول ایوی ایشن اور متعلقہ اداروں سے اپیل ہے کہ کم از کم اپنی نوکریاں بچانے کے لیے ہی سہی مگر اس قیمتی قومی اثاثے کو بروقت بچانا اب بہت ضروری ہو گیا ہے۔وگرنہ دوسری صورت میں اس قومی ورثے کی تمام جائیداد اور اثاثے بیچ کر بھی ہم اس قومی ادارے کے فقط قرضہ جات اتار سکنے کے قابل بھی نہیں ہوں گے۔اس وقت پی آئی اے کے پاس ساٹھ سے ستر فیصد زمینی سٹاف اور فضائی عملہ بلاجواز ہے۔اور پی آئی اے کو ہزاروں بیروزگاروں اور’’ویلوں‘‘ کا قبرستان بننے نہ دیا جائے۔یہ ایئر لائنز ایک قومی اثاثہ ہے اور اس کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ پاکستان کی حفاظت۔ایک تازہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ایک جہاز پر اوسطاً پانچ سوسے زائد ملازم کام کر رہے ہیں۔ جب کہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ایک جہاز پر بیس سے پینتیس افراد کی شرح بنتی ہے۔قارئین اس سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ہمارے اس قومی ادارے کی بربادی کے اسباب کیا کیاہیں؟
قارئین! پی آئی اے میں سفر کرنے کے جہاں نقصانات ہیں، وہیں اس قومی ایئر لائن کا کم از کم ایک فائدہ ضرور ہے اوروہ یہ کہ اس نجی ایئر لائن کے فضائی میزبان اور فضائی عملہ آئے روز امریکہ، کینیڈا اور یورپین ممالک میں ’’سلپ‘‘ہو جاتے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہے پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کو ہیلپ ملتی ہے۔ اس طرح پی آئی اے دانستہ یا نادانستہ ملکی خدمت میں پیش پیش ہے۔ اگر آپ کا کینیڈا آنا ہوتو بلامبالغہ راہ چلتا ہر تیسرا بندہ یا بندی آپ کو پی آئی اے کا سابقہ بھگوڑا ہی نظر آئے گا۔

ای پیپر دی نیشن