بلال پاشا نے والد سے آخری بار فون پر کیا کہا تھا

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں گزشتہ شام سی ایس ایس آفیسر بلال پاشا کے اچانک انتقال نے دوستوں، کولیگز، فالوورز سمیت انہیں قریب سے جاننے اور جدوجہد سے واقفیت رکھنے والوں کو انتہائی افسردہ کردیا۔ اُن کی نماز جنازہ منگل 28 نومبر کی صبح آبائی علاقے عبدالحکیم میں ادا کردی گئی۔بطور چیف ایگزیکٹو آفیسرملٹری کنٹونمنٹ بنوں بلال پاشا اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہیں دل کا دورہ پرا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ڈی پی او بنوں افتخارشاہ کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ خودکشی کا واقعہ لگ رہا ہے تاہم تاہم پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے کے بعد حتمی وجہ کا تعین ہوگا۔بلال پاشا کے والد احمد یار نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بیٹے سے آخری مرتبہ فون پر ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بتائیں۔خانیوال میں گاؤں عبدالحکیم میں مزدوری کرنے والے احمد یارنے بتایا کہ بلال سے ہفتے کو بات ہوئی تو اس نے بتایا تھا کہ اس کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ ٹیلیفونک بات چیت کے دوران آبدیدہ والد کے مطابق ، ’آٹھ دس روز پہلے فون پربلال کہہ رہا تھا کہ بابا میرا دل چاہتا ہے نوکری چھوڑ کرگھرآجاؤں یا کچھ روزکی چھٹی لے لوں تاکہ دل بھر کر سو سکوں۔ اب راولپنڈی جا کر چھٹی کی درخواست دیکر گھرآتا ہوں‘۔احمد یار نے بتایا کہ اُن کے پانچ بیٹوں میں بلال سب سے چھوٹا تھا۔ ایک بھائی بشیر احمد کی اولاد نہیں تھی اس لیے انھوں نے بھتیجے بلال کو گود لے لیا تھا اور جوائنٹ فیملی ہونے کے باعث بلال کی پرورش دونوں خاندانوں نے مل کر کی۔والد کے مطابق، اتوار کے روز فجرکی نماز کے وقت مجھے بلال کا فون آیا تھا، میں حیران تھا کہ وہ اس وقت فون نہیں کرتا، معلوم نہیں کیوں فون کیا ہو گا۔ اس کے بعد بلال کی بات اپنے دوست سے ہوئی تھی اور وہ یہی بتا رہا تھا کہ وہ اسلام آباد جا رہا ہے، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ۔ اس کے بعد جب میں نے بلال کو فون کیا تو بات نہیں ہو سکی کیونکہ بلال نے فون نہیں اٹھایا، میں سمجھا کہ سو گیا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ صبح گیارہ بجے اور پھر ساڑھے بارہ بجے میں نے دوبارہ کال کی لیکن بلال نے فون نہیں اٹھایا۔ مجھے فکر ہوئی لیکن یہی سوچا کہ بلال سویا ہوا ہو گا۔والد کے مطابق وہ رات دیر گئے بمسجد میں بیٹھ کربلال کو فون کرتے رہے لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔ پھر یہی سوچا کہ بلال اٹھے گا تودیکھے گا کہ بابا نے اتنی کالیں کی ہیں تو خود فون کرے گا، لیکن بلال کا فون نہیں آیا۔ پیر کے روز بلال کے ایک دوست کو فون کیا جس نے کمرے میں جا کر دیکھا تو اندر سے دروازہ بند تھا۔’دوست نے بلال کے والد کو بتایا کہ جب وہ دروازہ توڑ کراندر داخل ہوئے تو بلال زندہ نہیں تھا۔احمد یار نے مزید بتایا کہ ہمیں نہیں معلوم کیا ہوا ہے، اس نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کجس سے کوئی پریشانی ظاہر ہوتی ہو۔ بلال میرا بیٹا تھا لیکن ساتھ ساتھ بہت اچھا دوست بھی تھا۔ وہ اکثر اپنے دل کی باتیں میرے ساتھ کرتا تھا۔والد نے یہ بھی بتایا کہ بلال پاشا نے دو، تین سال پہلے شادی کی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی علیحدگی ہو گئی تھی۔اسسٹنٹ کمشنر بنوں سید ابرار علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ، ’بلال پاشا سے فون پر رابطہ نہ ہونے پر سوچا کہ دفتر جا کر مل لیتا ہوں۔ جا کر علم ہوا وہ دفتر نہیں آیا، تو ان کی رہائش گاہ چلا گیا۔ملازمین سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہم کئی مرتبہ دروازے پر دستک دے چکے ہیں لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آ رہا‘۔

سید ابرارکے مطابق، ’ہم نے دروازہ توڑنے کی کوشش کی، کئی مرتبہ کوشش کرنے کے باوجود بھی دروازہ نہیں ٹوٹا تو ہمپیچھے اسٹور کے راستے کمرے میں پہنچے تو بلال مردہ حالت میں تھا‘۔انہوں نے بتایا کہ بلال نے اُن سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے گمان ہو کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ کبھی ایسا گمان بھی نہیں ہوا، کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیسے ہو گیا۔ پیر کو اس نے چارج ہینڈ اوور کر کے راولپنڈی جانا تھا۔’ابرار اور بلال کی دوستی سول سروسز اکیڈمی کے دوران ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ بلال انتہائی خوش مزاج لڑکا تھا جو ہر محفل کی جان ہوتا تھا۔سی ایس ایس کرنے کے بعد بلال نے کیا کہا تھا مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد پہلی بار سامنے آنے والے بلال شاہ نے اپنی جدو جہد کی کہانی سنائی تھی۔سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری تھی کہ سی ایس ایس کا امتحان ایلیٹ کلاس اوراثرورسوخ والے خاندانوں کے بچے ہی پاس کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد منہ بولے والد بشیراحمد کے ساتھ اینٹوں کی دیوار کے سامنے کھڑے بلال پاشا نے اپنیکہانی سنائی تھیجو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔سال 2019 میں سی ایس ایس کے امتحان میں وہ 85ویں پوزیشن لانے والے بلال پاشا محکمہ ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ میں تعینات ہوئے۔ وہ سی ایس ایس سے قبل 17ویں گریڈ کی مختلف سرکاری نوکریاں کر چکے تھے اور والد کی ے کہنے پر مقابلے کا امتحان دیا تھا۔اس ویڈیو میں اپنی انتھک محنت اور جدوجہد کی کہانی سنانے والے بلال کا کہنا تھا کہ، ’یہ میرے قابلِ فخر والد بشیر احمد ہیں جنھوں نے ساری زندگی مزدوری کی، الحمداللہ مجھے بہت فخر ہے کہ میں ایک مزدورکا بیٹا ہوں۔ میرے خاندان میں صرف دو تین لوگوں نے میٹرک کیا، اس کے بعد کوئی بھی انٹر تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ میرے والد اور والدہ دونوں نے ہی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی‘۔بلال کی جانب سے یہ ویڈیو پیغام ان لوگوں کے لیے جواب تھا جو اپنی بات پر ڈٹے تھے کہ سی ایس ایس صرف اثر ورسوخ رکھنے والے ہی کرسکتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ، ’میں نے مکتب اسکول سے پرائمری کی تعلیم حاصل کی جہاں چھٹی جماعت میں بچوں کو اے ، بی ، سی پڑھائی جاتی ہے، پھر سرکاری اسکول اور کالج سے میٹرک اور ایف ایس سی مکمل کیا۔ اسکول کے بعد فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی سے لگاتارسرکاری تعلیمی وظائف لے کر تعلیم حاصل کی‘۔ویڈیو کے اختتام پر بلال نے یہ بھی کہا تھا کہ، ’لاہور پہنچنے کے بعد ایسے طلبا کیلئے ساتھی سی ایس ایس ٹاپرز کے ساتھ مل کر لیکچرزکا انتظام کروں گا جو اچھی اکیڈمیوں میں داخلے کی استطاعت نہیں رکھتے‘۔انھوں نے یوٹیوب ویڈیوز کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر طلبا کو مختلف مضمون پڑھائے اور امتحان سے متعلق رہنمائی بھی دی۔بلال یو ٹیوب پر ’لرن ود بلال پاشا‘ نامی یوٹیوب چینل چلاتے تھے، جہاں انہوں نے آخری ویڈیو 9 روز قبل شیئر کی تھی۔ان کی آخری ویڈیو سی ایس ایس کے اسکریننگ ٹیسٹ یعنی ایم سی کیوز بیسڈ پریلمنری ٹیسٹ (ایم پی ٹی) کے حوالے سے رہنمائی پر مبنی تھی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...