کہتے ہیں کہ دنیا میں لڑائی زن زر زمین کی وجہ سے ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اسکی مثال پاراچنار کے حالیہ واقعات سے ملتی ہے۔ قتل و غارت گری کے ان واقعات کے بارے میں جب بھی سنتے ہیں تو خوف سا طاری ہو جاتا ہے۔ وہاں سارا سال خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے جس کو ابھی تک کوئی بھی روک نہیں سکا اور صورت حال یہ بنی ہوئی ہے کہ:
اب درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے
کیا زمانہ ہے کہ انسانوں سے ڈر لگتا ہے۔
عزت نفس کسی کی نہیں محفوظ یہاں
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے۔
کہنے کو تو ہم 21 ویں صدی کے رہنے والے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا دماغ پتھر کے دور سے نکل نہیں سکا۔ پاراچنار آج بھی فرقہ واریت میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم آئے روز سنتے ہیں کہ پاراچنار میں مسافر بسوں پر حملے ہو گئے اور اتنے لوگ مارے گئے۔ ہمارے سکیورٹی اہلکار تو وہاں جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ وہاں آج بھی سیکورٹی فورسز ہمہ وقت الرٹ ہیں اور پوری دل جمعی سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہیں۔ پارا چنار سے پشاور تک کا راستہ صبح 11 سے رات 9 بجے تک کھولا جاتا ہے اور اس راستے پر جانے والے قافلے سکیورٹی فورسز کے تحفظ میں جاتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے باوجود مسافروں پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور کبھی کبھی سارا سامان لوٹ لیا جاتا ہے۔ مارنے والے خواتین اور بچوں کا بھی لحاظ نہیں کرتیاور انہیں بھی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے۔ اس کی وجہ وہاں فروغ پانے والی فرقہ واریت بتائی جاتی ہے۔ مسافر بسوں پر فائرنگ کیحالیہ واقعات سے قبل 2 اگست کو بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں مسافر گاڑیوں میں خواتین سمیت 44 لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح 12 اکتوبر کو بھی قافلے پر حملہ کیا گیا تھا جس سے 15 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان بیریسٹر سیف خْرم نے بسوں پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر دْکھ کا اظہار کیا اور بتایا کہ پہلے پولیس پر حملہ کیا گیا اور پھر دونوں اطراف سے گولیوں کا تبادلہ ہوا۔ حملہ آور گولیاں برسا کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختوں خواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور صورت حال کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ ڈی پی او اور آر پی او جائے وقوعہ پر موجود ہیں۔ تفشیش جاری ہے۔ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ دوسری جانب وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور ان سے سکیورٹی کی صورت حال پر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے علی امین گنڈا پور کو یہاں تک کہا کہ خیبر پختون خواہ اہم صوبہ ہے۔ میں مدد کیلیے حاضر ہوں۔ ایسے واقعات پاراچنار میں کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ یہ خون کی ہولی کب سے کھیلی جا رہی ہے۔ یہ لڑائی زمین کی وجہ سے ہوتی ہے یا فرقہ واریت کی بنیاد پر؟۔ کرم کے علاقے میں آج تک لینڈ ریکارڈ ہی موجود نہیں اور لینڈ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع میں مختلف مقامات پر مختلف قبیلے اور افراد زمین کے ٹکڑوں کے دعویدار بن جاتے ہیں۔ کرم کا علاقہ بہت خوب صورت ہے یہاں سر سبزو شاداب کھیت اور باغات ہیں جن کی وجہ سے اس علاقے کو چاول سبزیوں اور میواجات کی پیداوار میں خصوصی شہرت حاصل ہے۔ اس زمین کے دعوے دار قبیلے فروعی اختلافات میں الجھے رہتے ہیں اور زمین کی ملکیت پر بھی ان کے تنازعات چلتے رہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس علاقے کی آدھی زمین پاکستان اور آدھی زمین افغانستان میں ہے۔ قیمتی معدنیات سے لبریز اس ہزاروں ایکڑ زمین کی ملکیت پر لڑائی جاری ہے۔
کرم کو 2018ء میں کے پی کے کا حصہ بنا دیا گیا تھا لیکن ابھی یہ بات واضع نہیں ہوئی کہ کرم کے پی کے کا ابھی تک مکمل طور پر حصہ بنا بھی ہے یا نہیں۔ البتہ یہ اس کے سیاسی پروسیس کا حصہ ضرور بن گیا ہے۔
اس علاقہ میں سب سے زیادہ نقصان کرم ایجنسی کا ہوا ہے۔ کرم ایجنسی تین حصوں اپر، سینٹرل اورلوئر کرم میں تقسیم ہے۔ اس کی مجموعی آبادی 785000 سے اوپر ہے۔ یہاں توری بنگش منگل اور مقبل قبیلے آباد ہیں۔ کرم ایجنسی کا جائزہ لیا جا ئے تو یہاں ایک دوسرے کے متحارب دو فرقوں کا غلبہ ہے۔ ایک فرقے والا قبیلہ اپر کرم میں آباد ہے جو افغانستان کے نزدیک ترین علاقوں میں شامل ہے جس میں پاراچنار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سینٹرل اور لوئر کرم میں دوسرے فرقے پر مشتمل قبیلے کی آبادی بہت زیادہ ہے۔
یہاں لڑائی کی اصل شروعات کرم ایجنسی سے ہوئی تھی۔ یہ سلسلہ بہت عرصے تک چلتا رہا اور کچھ عرصے تک یہ سلسلہ رْکا بھی رہا۔ پھر 1996ء میں ایک نیا موڑ آیا۔ پاراچنار کے ایک سرکاری سکول میں بلیک بورڈ پر کچھ ایسے الفاظ لکھ دیے گئے جو ایک فرقے کی دل آزاری کا باعث بنے۔ طلبہ نے ہیڈ ماسٹر کو رپورٹ کی جنہوں نے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنسی سے بات کی جہاں سے بات پھیل گئی۔ جرگے نے کوشش کی کہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے لیکن یہ ممکن نہ ہو پایا جس پر دو مسالک کے طلبہ میں لڑائی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں گولی چلی تو لڑائی تیز ہوگئی۔ دونوں طرف سے اسلحہ بے دریغ استعمال ہوتا رہا۔ مہینوں تک مقامی جنگ جاری رہی جس میں سکول کے ہیڈ ماسٹر سمیت 200 لوگ مارے گئے۔ جرگے نے اس لڑائی کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ پھر وقفے وقفے سے ٹارگٹ کلنگ جاری رہی۔ سب سے ہولناک واقعہ 2007ء میں پیش آیا۔ ایک فرقے کے جلوس پر فائرنگ ہوئی اور فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ صرف پاراچنار تک محدود نہ رہا بلکہ کراچی اور کوئیٹہ بھی اس کی لپیٹ میں آیا اور پھر ملک بھر میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے لوگوں کو مارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی، مولانا حق نواز جھنگوی، پاکستان کینامور شاعر محسن نقوی، مولانا ضیا الرحمن فاروقی، محمد سلیم قادری، مولانا اعظم طارق، ایرانی قونصل جنرل صادق گنجی، مولانا ضیاء الدین رضوی اور علامہ حسن تْرابی اسی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھے۔ کچھ عرصے تک یہ سلسلہ رْکا رہا لیکن اب پارا چنار میں یہ افسوسناک واقعات دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال پہلے ہی ٹھیک نہیں اس لیئے ایسے واقعات معاشرے میں انتشار پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ پاک اس ملک کواوراس ملک میں رہنے والوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔