گذشتہ رات گئے ڈی چوک اپریشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ان کے بانی کی کال پر جاری احتجاج ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومتی وزراء اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اپنے بیانات میں پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور احتجاج کے سلسلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ پی ٹی آئی اپنے احتجاج کے لئے ایسا وقت متعین کرتی ہے جب غیر ملکی اہم شخصیات کی پاکستان آمد کا شیڈول ہوتا ہے اور اس حرکت سے دنیا بھر میں انتہائی منفی پیغام جاتا ہے۔ اس سے پہلے 14-15اکتوبر کے دوران جب چینی وزیراعظم پاکستان کے سرکاری دورے پر تھے تو پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دے رکھی تھی اور اسی دوران شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہونا تھا جس میں کئی سربراہان مملکت اور اعلٰی سطحی وفود نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ اب ایک بار پھر بیلا روس کا کثیر رکنی وفد بیلا روس کے صدر کی سربراہی میں پاکستان کے دورے پر ہے جس میں انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت کے معاہدے کرنے ہیں اور ایسے وقت میں ایک بار پھر پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں تاحال 4رینجرز اہلکاروں اور ایک پولیس اہلکار کی شہادت کی خبریں آئی ہیں اور کئی پولیس افسران و جوانوں کو احتجاج کرنے والوں نے زخمی کیا ہے۔
اس صورتحال کے تحت وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے احتجاج کرنیوالوں کو متنبہ کیا کہ جو بھی انتشار پھیلائے گا اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ وفاقی دارالحکومت پر لشکر کشی کرنے کے بجائے ضلع کرم میں پائی جانے والی بدامنی اور پرتشدد واقعات کو روکنے کی طرف توجہ دیتی تو بہتر ہوتا لیکن انہیں اپنے صوبے میں عوام کی جان و مال کا کوئی احساس نہیں ہے اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے احتجاج کی سیاست سے ملک کو پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملک کو یومیہ 190ارب روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ احتجاج کے باعث کاروبار اور برآمدات و درآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ سکیورٹی انتظامات پر بھاری رقوم کا خرچ لازم ہوجاتا ہے۔ ملک مخالف زہریلے پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کے لئے سائبر سیکورٹی انتظامات کے تحت انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی سے آئی ٹی انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آئی ٹی انڈسٹری اور آن لائن کاروبار سے منسلک افراد کو ہونے والے یومیہ نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔صوبوں کے زرعی شعبے کو یومیہ 26ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ صوبوں کو صنعتی شعبے میں یومیہ 20ارب روپے کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن نے کہا کہ ہمیشہ بات چیت کا دروازہ کھلا تھا اور ہم پھر سے بات چیت کی طرف جائیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے منتخب ہوتے ہی قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں اپوزیشن کی جماعت کو ڈائیلاگ کی پیشکش کی اور پرتپاک انداز میں بیان دیا کہ میں جیل جاکر بانی پی ٹی آئی سے ملک کی خاطر بات چیت کرنے کو ہر وقت تیار ہوں اور مجھے جب بھی کہا گیا میں اپوزیشن سے فوری ڈائیلاگ کا آغاز کروں گا لیکن بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ہمیشہ سے حکومت سے بات چیت کرنے کے امکانات کو سختی سے ردکیا جاتا رہا۔ اب اگر رؤف حسن بات چیت کا بیان دے رہے ہیں تو معاملات کو یہاں تک پہنچانے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک کو اتنا بھاری نقصان دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اتنے افراد کی جانوں سے کھیلنے کی کیا ضرورت تھی؟
میں تو اس سیاست ضد اور ہٹ دھرمی کے متعلق پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی سے سیاسی بقاکا مکمل خاتمہ ہوجاتا ہے اور ملک کا ماضی گواہ ہے کہ اب تک اقتدار میں آنے والے تمام افراد اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات کی بنیاد پر ہی اقتدار تک پہنچے ہیں اور خود بانی پی ٹی آئی بھی اسی طریقے سے ہی اقتدار میں آئے تھے۔ اپنی نااہلی اور غلط پالیسیوں کے باعث ملک کو ترقی معکوس جانب لے جانے اور عالمی طور پر ملک کو تنہا کردینے کی پالیسی کے باعث ان کی حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہوچکا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنی نااہلی کا اعتراف کرکے آئندہ اس کے ازالے کی بات کرتے لیکن انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر بے بنیاد الزام تراشی کی۔ ایسی سیاست کا آغاز کیا کہ آج ان کی پارٹی درہم برہم ہوچکی ہے۔ ان کی وفاقی و صوبائی کابینہ میں اہم ترین عہدوں پر رہنے والے انہیں چھوڑ چکے ہیں اور مزید ضد و انا کی سیاست جاری رکھی گئی تو ان کی پارٹی کو مزید ناقابل تلافی نقصانات کا اندیشہ موجود ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 70ء کی دہائی میں میرے قائد ایئرمارشل اصغر خان ملک بھر میں انتہائی مقبول عوامی لیڈر تھے اور کراچی ایئرپورٹ سے ان کا قافلہ 8گھنٹے بعد نشترپارک پہنچا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب میاں نوازشریف‘ میاں شہباز شریف‘ شیخ رشید‘ جاوید ہاشمی‘ نثار کھوڑو سمیت اس وقت کے نامور سیاستدان تحریک استقلال میں تھے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ایئرمارشل اصغر خان کو براہ راست اور بالواسطہ 5مرتبہ وزارت عظمٰی کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ میں نے عوام کی خدمت کے لئے سیاست کرنی ہے اور کسی کی نوکری نہیں کرنی۔ ان کی جانب سے اقتدار تک رسائی کی پیشکش کو مسترد کئے جانے کے بعد انہیں جنرل ضیاء الحق نے گھر میں ہی 5سال3ماہ تک تک نظربند رکھا۔ ایئرمارشل اصغر خان نے تو اپنی نظربندی پر لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے کی کوئی کال نہیں دی کیونکہ وہ ملک کے نفع اور نقصان کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ان کی نظربندی کے دوران ہی میاں نوازشریف‘ میاں شہباز شریف اور جاوید ہاشمی سمیت کئی سیاستدان پارٹی چھوڑ گئے۔ حالانکہ میرے قائد ایئرمارشل اصغر خان نے عمران خان کی طرح عسکری قیادت کے خلاف سخت بیانات بھی نہیں دیئے تھے اور نہ ہی فوجی تنصیبات میں عوام کے ذریعے توڑ پھوڑ کرنے کا ان پر کوئی الزام تھا۔ نہ ہی ایئرمارشل اصغر خان نے اسلام آباد کی جانب بار بار لانگ مارچ کیا تھا۔ اس کے باوجود ان کی طویل نظربندی کے دوران پارٹی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاءکے نفاذ کے بعد تو تحریک استقلال کے قائد ایئرمارشل اصغر خان کے بیٹے نے دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی اور دوسرے بیٹے نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور اب وہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ایئرمارشل اصغر خان کو اللہ پاک جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اسی لئے اقتدار تک نہیں پہنچ سکے۔
گزشتہ ڈھائی سال کی بانی پی ٹی آئی کی سیاست اگر جاری رہی تو ان کی جماعت کا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ ان کے بیٹے تو ویسے بھی سیاست میں نہیں ہیں البتہ ان کی بیوی اب سیاست میں حصہ لے رہی ہیں اور بیانات دے کر پارٹی پر اپنی گرفت بنانے کی کوششوں میں ہیں لیکن موجودہ ضد‘ انا اور ذاتی سیاسی مفادات کے حصول کی سیاست اگر جاری رہی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت طرز عمل جاری رہا تو مجھے لگتا ہے کہ ان کی پارٹی کا مستقبل انتہائی تاریک ہے۔ اسی لئے بانی پی ٹی آئی اپنی موجودہ عوامی مقبولیت کا غلط استعمال کرکے ملک کے لئے نقصان دہ فیصلوں سے اجتناب کریں اور مثبت سیاست کا آغاز کرکے ڈائیلاگ کے ذریعے معاملات کو بہتر جانب لے جائیں تو ان کا سیاسی مستقبل بچ سکتا ہے۔ موجودہ طرز عمل ایک طرف تو ذاتی انا کی تسکین ہے تو دوسری جانب ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ ملک کی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف عوام میں نفرت کے جذبات پیدا کرنا کسی بھی صورت میں حب الوطنی کے زمرے میں نہیں آسکتا۔
خدارا !!ملک کا خیال کریں اور پاکستان کو لیبیا‘ عراق یا ترکی بنانے کے بجائے ایک بہترین پاکستان بنائیں اور سڑکوں پر انتشار کی سیاست کے بجائے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کریں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے بار بار بات چیت کی پیشکش کو خوشدلی سے قبول کرکے بات چیت کے ذریعے جمہوری انداز میں مسائل کو حل کیا جائے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ پی ٹی آئی کے جائز مطالبات کو ماننے میں کسی بھی طرح کی سستی کا مظاہرہ نہ کرے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو اور آرمی چیف کی کاوشوں سے ملک میں جاری غیر ملکی سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوسکے۔ملک کو معاشی نقصانات سے بچائیں۔ غریب کو دو وقت کی روٹی میسر آنے دیں۔