پاکستان اس وقت بہت سے مسائل سے دوچار ہے جن میں سے ایک مسئلہ دہشت گردی کا ہے جو سنگین ترین صورت اختیار کرچکا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب دہشت گردی اور تخریب کاری کی کوئی وردات نہ ہوتی ہو۔ ایک سانحے کا دکھ ابھی مندمل نہیں ہوتا کہ دوسرا رونما ہوجاتا ہے۔ دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا لہولہان ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک جام شہادت نوش کررہے ہیں۔ یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے پے در پے رونما ہونے والے واقعات سے پاکستان کی فضا سوگوار ہے۔ ہم سیکورٹی فورسز کے بہادر جوانوں اور غازیوں کو سلام پیش کرتے جو اپنی جانوں پر کھیل کر وطن کا دفاع کررہے ہیں۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر اب ضرورت امر کی ہے کہ اس ناسور کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں ، دہشت گردوں کو نشان ِ عبرت بنایا دیا جائے اور پوری قوت سے ان کو کچل دیا جائے۔
لیکن ہمیں سب سے پہلے دہشت گردی کے اسباب کو دیکھنا ہوگا جب اسباب کا تعین ہوجائے تو سدباب بھی یقینی ہوجاتا ہے۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے جب دہشت گردں کا سرغنہ اور ’ را‘ کا ایجنٹ کلبھوشن یادیو بلوچستان سے اپنے نیٹ ورک سمیت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔کلبھوشن کا پکڑے جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت ملوث ہے۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی چینلز پر بیٹھے ان کے اینکر اور دفاعی تجزیہ نگار علانیہ پاکستان کی سا لمیت کے بارے میں ہذیان بک رہے اور بلوچستان میں دراندازی کے دعوے کررہے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے یہ سب اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور اس کے تانے بانے براہِ راست نئی دہلی سے ملتے ہیں۔ بھارت ہمارا دشمن ہے اس نے دشمنی ہی کرنی ہے۔ بھارت سے خیر اور بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔
بلوچ عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی اور بے چینی کا خاتمہ کیا جائے۔ جہاں ممکن ہو معاملات مفاہمت سے طے کیے جائیں۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تشدد مسئلے کا حل نہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ لوگوں کے جان ومال سے کھیلنے والے دہشت گردوں کو ڈھیل دی جائے۔ یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے اور دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ بلوچستان کی طرح خیبر پختونخوا بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز قائم ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کررہے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اعلیٰ سطح پر یہ معاملات اٹھائے اس کے باوجود بات نہیں بنتی تو دوست ممالک کو درمیان میں ڈالا جائے کوشش کی جائے کہ افغانستان کے ساتھ ہر صورت اخوت اور محبت کا رشتہ قائم رہے۔
پاکستان نے لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کی ہے، لہٰذا طالبان کو بھی دانشمندی اور فہم وفراست سے کام لینا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان ایک پڑوس میں رہنے والے دو بھائی ہیں ، دونوں کے دکھ سکھ مشترک ہیں، دونوں کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایک پڑوسی مستحکم اور خوشحال ہوگا تو لازماً دوسرا بھی مضبوط وخوشحال ہوگا لیکن اگر ایک کا گھر جلے گا تو اس سے اٹھنے والے شعلے دوسرے گھر کو بھی لپیٹ میں لیں گے۔ اس لیے افغانستان کو پاکستان کے راستے میں کانٹے بچھانے اور ایسے گروپوں کو اپنے ہاں ٹھکانے دینے کی روش ترک کرنا ہوگی جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو کشمیر پالیسی پر بھی نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ اس لیے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ پاکستان کا مستقبل اور دفاع وابستہ ہے۔ اس وقت دہشت گردی، صنعت اور زراعت کی صورت میں ہمیں جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے ان کا تعلق براہِ راست کشمیر کے ساتھ ہے۔ اس سے پہلے جب تک یہ مسئلہ کشمیر کسی نہ کسی حد تک ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل رہا بھارت کو پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کی جرأت نہ ہوتی تھی، جیسے ہی عمران خان کے دور میں مسئلہ کشمیر پر یوٹرن لیا گیا، مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا یا نظر بند کردیا گیا تو اس کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں شروع کردیں۔ دوسری طرف ہماری شہ رگ بھارت کے قبضے اور پنجے میں ہے جبکہ ہمارا دشمن روز بروز اس پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط کرتا چلا جارہا ہے۔
ضروری ہے کہ اپنی شہ رگ کو بھارت کے قبضے اور پنجے سے آزاد کروانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ یہ بات زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر طے کرلی جائے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ کشمیر کو اتنا ہی اہم سمجھا جائے جتنا ہمارے حکمرانوں کے نزدیک شہرِ اقتدار اسلام آباد ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو پاکستان کے اندرمظلوم کشمیر یوں کے ساتھ وفا کے جرم میں جیلوں میں قید یا نظر بند ہیں انھیں رہا کیا جائے اور ان پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ دہشت گردی کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر کے یقینی حل کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز ، حکومت ، اپوزیشن ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر مشتمل قومی کانفرنس بلائی جائے جس میں ان مسائل کے حل لیے قومی پالیسی ترتیب دی جائے اور پھر اسے بطور قومی پالیسی کے ہی نافذ کیا جائے۔مزید یہ کہ ہر آنے والی حکومت اس پالیسی کی پابندی کرے۔