آپریشن شروع ہوتے ہی بشریٰ بی بی اور علی امین کارکنوں کوچھوڑ کر بھاگ نکلے۔
پروین شاکر نے ایک خوبصورت احساس کو اپنیایک پیارے سے شعر میں یوں سمو دیا تھا :
وہ جا چکا ہے تو بھی نہ آنکھیں کھولو
یونہی محسوس کیئے جائو رفاقت اس کی۔
بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور اگر قافلے کو یوں بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگ اٹھے تھے تو باقی قیادت کہاں گئی ہے۔ وہ بھی لگتا ہے ان سے پہلے ہی راہ فرار اختیار کر گئی تھی۔ رہے مظاہرین تو چلو وہ ہی کچھ حق رفاقت ادا کرتے، جم جاتے، گرفتاریاں دیتے تاکہ قیدی کو بھی پتہ چلتا کہ اس کے دست و بازو بنیلیڈران کرام تو بھاگ گئے مگر کارکن ڈٹے رہے۔ احتجاج نہ کرتے خاموشی سے گاندھی کے آہنسا کے فلسفے پر یا یوں کہہ لیں خان عبدالغفار خان کے عدم تشدد کے فلسفے کے تحت سکون سے گرفتاریاں دیتے۔ قسم لے لیں پولیس والے خود تھک ہار کر انہیں ہاتھ جوڑ کر واپس کرتے کہ چلے جائو جگہ نہیں ہے۔ کہاں رکھیں گے تمہیں، کیا کھلائیں گے مگر سالار ہی جب چٹکی بھر مچھر بن کر اڑن چھو ہو جائے تو سپاہ خودبخود تتربتر ہونے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہے۔ اب خدا جانے اس حلف کا کیا ہو گا جو بی بی اور گنڈاپور نے جلسے اور جلوس میں لیا تھا کہ ماریں گے مر جائیں گے۔ قیدی کے بنا واپس نہیں جائیں گے۔ ہم سب کفن ساتھ لے کر آئے ہیں۔ اب وہ نجانے کہاں پھینک گئے۔ بہرحال اب امید ہے قیدی خود بھی میدان سے بھاگنے والوں کے نام عہدے جمع کریں گے۔ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کے نکاح نامے معاف کیجئے حلف نامے طلب کریں گے اور کیا ایکشن لیں گے، جلد پتہ چل جائے گا۔ ان کی آخری کال یا فائنل رائونڈ کا یوں مس ہونا ان کے بھی وہم و گمان میں نہ تھا۔ مگر اب ان کی اس منفی سیاست کا اثر خیبر پی کے ، وفاقی اور پنجاب حکومت پر جو ہو گا اس کا ذمہ دار کون ہے۔ تین صوبوں کی عدم شرکت سے انہیں جان لینا چاہیے تھا کہ مفاہمت کی راہ کم از کم کھلی رکھتے۔
عدالت کے احکامات کے تحت اسلام آباد کو شرپسندوں سے خالی کرائیں گے۔ آئی جی اسلام آباد
اگر عدالت کے حکم پر پہلے ہی سختی سے عمل کیا گیا ہوتا تو شاید آئی جی اسلام آباد کو یہ دو روزبعد کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ کیا اب پولیس کی تربیت اس طرز پر ہوتی ہے کہ وہ بپھرے ہجوم کومنتشر بھی نہیں کر سکتی ، وہ وقت بھی لوگ دیکھ چکے ہیں۔ ایوب خان کے دور سے ضیاء الحق کے دور تک کہ چند پولیس والے ہی جو بڑی بڑی لاٹھیوں سے لیس ہوتے تھے جن کے سروں پر لوہا منڈھا ہوتا تھا۔ بڑے بپھرے ہوئے ہجوم کو
جو پتھرائو بھی کر رہا ہوتا تھا۔ نہایت اطمینان سے یوں منتشر کر دیتے جیسے چرواہا اپنے ڈنڈے سے اِدھر اْدھر جانے والی بھیڑ بکریوں کو سیدھی لائن میں رکھتا ہے۔ بات زیادہ بڑھتی تو اشک آور گیس والا یونٹ حرکت میں آتا اور آنسو گیس پھینک کر ہجوم یا جلوس کو منتشر کر دیا جاتا۔ کیا ان کی تربیت کسی اور سیارے پر ہوتی تھی۔ یا ان کو فری ہینڈ حاصل ہوتا تھا جو اب نہیں ہے۔ اب تو جدید دور میں جدید تربیت اور اسلحہ کی سہولت بھی حاصل ہے۔ دنیا بھر میں پولیس جدید خطوط پر استوار کی جاتی ہے جو ہنگامہ آرائی کرنے اور شرپسندی پر اترے ہجوم کو آسانی سے تتربتر کرنے کی ماہر ہوتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ رینجرز یافوج کی خدمات حاصل کی جائیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب حالات ہاتھ سے نکل جائیں۔ اسلام آباد میں جتنی بار بھی پی ٹی آئی نے چڑھائی کی نجانے کیوں معاملہ الٹا نظر آیا۔ مظاہرین پولیس والوں کی سٹی گم کر دیتے ہیں اور وہ اِدھر اْدھر جان بچاتے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ گویا ’’چھپتے پھرتے تھے چیتے ہرن شکاری تھے‘‘ والی حالت آج بھی نظر آ رہی ہے۔ اگر تربیت یافتہ فورس کا یہ حال ہے تو پھر اس کا کیا فائدہ۔ ان سے اچار تو نہیں ڈلوانا۔ جو کام انہوں نے کرنا ہے ان سے کیوں نہیں ہو رہا۔ ضروری نہیں گولیاں چلائیں لاشیں گرائیں۔ حکمت عملی سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں پہلے یہی ہوتا ہے اور پھر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے جب ہجوم نہ مانے تو پھر ’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ اس وقت آئی جی کی خواہش بھی یہی ہے۔ دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں۔
زمبابوے کے خلاف دوسرا ون ڈے میچ پاکستان نے 10 وکٹوں سے جیت لیا۔
کرکٹ کے حوالے سے سچ کہیں تو بات کرتے ہوئے پتہ نہیں ہوتا کہ اگلے میچ میں کیسی صورتحال سامنے آئے۔ کہتے ہیں ناں ’’جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے‘‘ اسی لیے ایک شکست پر نہ تو برا بھلا کہنے کو دل چاہتا ہے نہ ایک فتح پر شادیانے بجانے کی خواہش امڈتی ہے۔ پہلے ون ڈے میں ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ بارش ہوئی تو لوگوں نے دعائیں کیں کہ جاری رہے اور میچ برابری کی بنیاد پر ڈرا ہو جائے گا مگر جس طرح ہر کھلاڑی واپس چائے پینے پویلین لوٹ کر آرہے تھے۔ اس کے بعد تو لگ رہا تھاکہ خواہ بارش ہو یا زلزلہ آئے ہم نے جیتنا پھر بھی نہیں۔ وہی ہوا اور پہلا میچ زمبابوے نے جیت لیا۔ ہماری شکست میں ہمارے بلے بازوں اور بائولروں نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا۔ اس کے بعد تو شائقین کا ماتھا ٹھنکا کہ خدا خیر کرے آگے نجانے کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ اسی شش و پنج میں گزشتہ روز جب میچ شروع ہوا تو دل دھک دھک کرنے لگا۔ آسمان پر دور دور تک بادل بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے کھلاڑیوں اور عوام کی دعائیں براہ راست آسمان تک جا پہنچیں اور وہ ہوا جس کی امید بہت کم لگ رہی تھی۔ بائولر پھر دوبارہ فارم میں نظر آئے۔ صرف یہی نہیں بلے بازوں نے بھی جب بلا گھمایا تو صائم کا بلا تو لگتا تھا گویا رنز اگلنے لگا ہو۔ صائم نے113 رنز بنا کر فتح یقینی بنا دی۔ یوں یہ میچ 10 وکٹوں سے جیت کر پاکستانی ٹیم نے شائقین کے دل جیت لیئے۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی سے لگ رہا ہے گاڑی پھر پٹڑی پر چڑھ گئی ہے۔ اب کوئی ناگہانی نہ ہوئی تو یہ سلسلہ بخیرو و خوبی آگے بھی جاری رہ سکتا ہے۔
نئے نویلے جوڑے کا کنٹینرز کے سامنے یادگار فوٹو شوٹ۔
شادی کے موقع پر دولہا اور دلہن اس دن کو یادگار بنانے کے لیے خوبصورت مقامات پر فوٹو شوٹ کراتے ہیں۔ ماہر فوٹو گرافر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے لے کر ایسے خوبصورت مقامات کا انتخاب کرتے ہیں۔ جن کی کوئی نہ کوئی اہمیت بھی ہوتی ہے اور یہ نظروں کو بھی بھاتے ہیں۔ خوبصورت، زرق برق لباس اور زیورات پہنے دلہن اور نفیس قیمتی لباس میں ملبوس دولہے میاں نت نئے انداز کے ساتھ ان مقامات پر تصاویر کھنچواتے ہیں جو یادگار ہوتی ہیں۔ اب تو تقریباً یہ فیشن بن گیا ہے۔ پہلے ایسا نہ تھا اچھے مالدار گھرانے والے کسی اچھے فوٹوگرافر کے سٹوڈیو میں جاکر یہ فوٹو شوٹ کراتے جو بعدازاں ان کے ذاتی کمرے یا ڈرائنگ روم میں آویزاں ہوتیں۔ آمدم برسر مطلب یہ سب باتیں یہ خبر پڑھ کر ذہن میں آئیں کہ اسلام آباد میں ایک نئے نویلے جوڑے نے شادی کا فوٹو شوٹ کرانے کے ایک ایسے مقام کا انتخاب کیا جو واقعی لاجواب اور یادگار رہے گا۔ دونوں نے اسلام آباد کی سڑکوں کو بلاک کرنے کے لیے لگائے کنٹینرز کے سامنے کھڑے ہو کر ایک نئے انداز کے ساتھ یہ تصاویر کھنچوائیں۔ جب یہ تصاویر وائرل ہوئیں تو لوگوں کی بڑی تعداد نے اس کی داد دی اور انہیں سراہا۔
خولہ اور قاسم کے اس فوٹو شوٹ نے جہاں ہزاروں سے داد سمیٹی وہاں خود بھی کہا کہ انہوں نے کنٹینروں کی دیواروں کے ساتھ تصاویر اس لیے بنوائیں تاکہ یاد رہے کہ ہماری شادی پر کیسا ماحول تھا اور ہم نے یہ دن اور موقع یادگار بنا دیا۔ بہرحال تصاویر کے ساتھ اب یہ منظر بھی کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا ہے جو یہ سب کو سنا کر اور دکھا کر انہیں محظوظ کریں گے۔
٭٭٭٭٭
جمعرات،25جمادی الاول 1446ھ 28 نومبر 2024
Nov 28, 2024