ملک کا سوچتا کون ہے؟؟؟؟؟

سب کے لیے پاکستان سب سے اہم ہونا چاہیے اور سب کے لیے پاکستان سب سے پہلے ہونا چاہیے لیکن کیا ایسا ہوتا ہے یہ وہ سوال ہے جو آج سب کے سامنے ہے۔ بنیادی طور پر یہ سوال سیاسی قیادت سے ہے کیونکہ اگر بالخصوص گذرے بیس برس میں سیاسی قیادت اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ کب کیا کرنا ہے، کیسے کارکنوں کی تربیت کرنی ہے، کیسے کارکنوں کو ملکی خدمت کے اہم کام پر لگانا ہے، سیاسی قیادت یہ فیصلہ ہی نہ کر پائے کہ کب کیا بولنا ہے، بولنا ہے یا نہیں، بات کرنی ہے تو کتنی بات کرنی ہے تو پھر آپ کس سے گلہ کریں گے۔ جب قیادت کو ہی احساس نہ ہو کہ ہر وقت بولتے رہنا مسئلے کا حل نہیں ہے تو پھر عام آدمی، سیاسی کارکن یا ووٹر اس سے آپ کس شے کی توقع کرتے ہیں۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کے اسان سے آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ جب وہ سڑک پر آئے گا، احساس محرومی سے بھرا ہوا، کسی کی طرف بھڑکایا ہوا تو وہ کیسے پرامن رہے گا، سیاسی قیادت بوقت ضرورت یا باامر مجبوری آزادی اظہار رائے کے نعرے لگاتی ہے لیکن یہ کبھی نہیں سمجھایا کہ کوئی بھی آزادی کتنی ذمہ داریاں لے کر آتی ہے۔ جب قیادت ہر وقت ابہام پیدا کرے گے تو ایک پھل بیچنے والا اسکو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہی لے گا۔ گذشتہ کئی روز سے ملک میں سیاسی طوفان آیا ہوا تھا، ہر وقت کی خبروں نے بیک وقت معاملہ حساس اور سنگین بھی بنایا لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ملک کا کیا ہو گا۔ مثال کے طور پر مولانا فضل الرحمٰن کو سنیں، مولانا فرماتے ہیں جو ہوا اس کی وجہ ووٹ کی چوری ہے، اداروں کو الیکشن سے دور رہنا ہو گا، پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کرے، اسٹیبلشمنٹ کو حق نہیں کہ ہمارے ووٹ کے ساتھ کھیلے، الیکشن آئین کے مطابق ہونا چاہیے، مسئلے کی اصل بنیاد ووٹ کی چوری ہے۔ مذاکرات اور بات چیت سے راستے نکلتے ہیں، بیرون ملک سے بیانات کا پی ٹی آئی کو نقصان پہنچتا ہے، اگر حکومت ہر صورت میں بانی پی ٹی آئی کو جیل میں رکھے گی اور وہ ہر صورت میں نکالنے کی کوشش کریں گے تو انارکی ہوگی۔ کسی صوبے کو احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے، سیاسی کارکن کے جذبات مخلصانہ ہوتے ہیں قیادت کو انہیں صحیح لائن دینی چاہیے۔
یہ مولانا کی ساری باتیں ہیں، کیا یہ وقت ایسے بیانات کا ہے، کاش مولانا عوام کو بتائیں کہ وہ کونسی حکومت تھی جس کے ساتھ بیٹھ کر انہوں نے چھبیسویں ترمیم پر کام کیا، اس وقت ملک میں کوئی حکومت تھی آج نہیں ہے، مولانا کہتے ہیں کسی صوبے کو احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے، کیا مولانا یہ نہیں جانتے کہ یہ احتجاج صوبے کا نہیں صوبائی حکومت کی فنڈنگ سے ہو رہا ہے، کیا خیبر پختونخوا میں مولانا موجود نہیں، کیا وہاں اے این پی نہیں، کیا وہاں پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ نواز یا دیگر سیاسی جماعتیں موجود نہیں، کیا یہ ساری جماعتیں احتجاج میں ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سرکاری وسائل کے بل بوتے پر ہونے والے احتجاج کو صوبے کے احتجاج کے ساتھ کیسے جوڑا جا سکتا ہے، مولانا یہ بھی فرماتے ہیں کہ حکومت کسی کو جیل میں رکھنا چاہتی ہے مولانا اس کو چھڑانے کے کیے عدالت چلے جائیں جو قانونی راستہ ہے وہ اختیار کریں، انہیں کوئی نہیں روکے گا۔ کیا اس طرح احتجاج سے کسی بھی قیدی کو چھڑانے کا پیغام دینا انارکی نہیں، جہاں تک انتخابات کا معاملہ ہے تو کیا جس صوبے کی وہ بات کر رہے ہیں وہاں تو نتائج حکمران جماعت کی مرضی کے ہیں کیا وہاں حالات بدلے یا بدتر ہوئے، سو ایسی باتیں کرنے سے مولانا بھی قوم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے حالانکہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ سیاسی قیادت درست رہنمائی کرے تو کیا مولانا خود کو سیاسی قیادت نہیں سمجھتے؟؟
یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لوگ بے چینی میں ہیں۔ سردار لطیف کھوسہ کو سن لیں وہ کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ بڑھکیں مارتے تھے لیکن ہم ڈی چوک پہنچ گئے، کھوسہ صاحب قوم کو یہ جواب دیں کہ ان دنوں میں قوم کا جو نقصان ہوا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے، جو شہادتیں ہوئی ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے، کھوسہ صاحب بات بڑھکوں کی نہیں احساس ذمہ داری کی ہے، ووٹرز کی اہمیت ہے لیکن ووٹر تو دھکے کھا رہا ہے آپ کی قیادت کہاں تھی، آپ خود مہنگے کپڑے پہنے اچھی گاڑیوں میں گھوم پھر رہے ہیں لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ آپ ٹیلیویژن شوز میں بیٹھ کر مسکرا رہے ہیں تحریک جاری رہنے کا بیان دے رہے ہیں۔ یعنی آپ کے نزدیک اس ملک کے مظلوم شہریوں کی کوئی اہمیت نہیں، کوئی وقعت و حیثیت نہیں، آپ کی قیادت شعر و شاعری سے لوگوں کو ورغلا کر خود کہیں گم ہے۔ کیا یہ وقت ایسے جذباتی بیانات کا ہے یا پھر یہ وقت ملک و قوم کی خاطر "انا" قربان کرنے کا ہے۔ 
حکومت کی بھی حد درجہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو جس حد تک انگیج کر سکتی ہے ضرور کرے، نظام انصاف کو بھی دیکھنا ہو گا کہ کہاں کہاں پرحدود سے تجاوز ہو رہا ہے، سب کی حدود کا تعین ضروری ہے، جب تک حدود کا تعین نہیں ہو گا معاملات نہیں سنبھل سکتے، سب کو ملک کے لیے سوچنا ہے، سب کو یہ سوچنا ہے کہ ملک کا فائدہ کس میں ہے، کس وجہ سے ملک کو نقصان ہے، کیسے لگ بھگ چوبیس کروڑ لوگوں کا مستقبل بہتر کیا جا سکتا ہے، کون ہے جس کی وجہ سے مستقبل دائو پر لگ سکتا ہے۔ اس سارے عمل میں جب تک بنیادی چیزوں کو درست نہیں کیا جائے گا اس وقت تک معاملات بہتر نہیں ہوں گے۔ لوگوں کو یہ سوچنا ہے کہ ہر وقت، ہر مرتبہ سڑکوں پر نکلنے مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے، اپنے منتخب نمائندوں سے پوچھیں کہ وہ اسمبلیوں میں کیوں ہیں اگر مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ نکلیں باہر ان اسمبلیوں سے،  جان چھوڑیں اگر انتخابات کے موقع پر بھی عام آدمی کے دھکے کھانے ہیں اور پھر آئندہ عام انتخابات تک پھر دھکے اور ڈنڈے کھانے ہیں تو پھر اس نظام کا کیا فائدہ ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ لوگ پاکستان کے بارے سوچیں، ذرا غور کریں آپ دنیا میں اپنا ملک کی کیا تصویر پیش کر رہے ہیں، ذرا سوچیں!!!!
آخر میں خاطر غزنوی کے چند اشعار
انساں ہوں گھر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں 
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
-----
اک تجسّس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا 
جو کبھی اپنا نہ تھا وہ غیر کا کیسے ہوا
-----
خاطر اب اہلِ دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں
-----
سر رکھ کے سو گیا ہوں غموں کی صلیب پر 
شاید کہ خواب لے اڑیں ہنستی فضاؤں میں
-----
گلوں کی محفل رنگیں میں خار بن نہ سکے 
بہار آئی تو ہم گلستاں سے لوٹ آئے
-----
گو ذرا سی بات  پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
-----
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں 
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
-----
کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں
بندے بھی ہو گئے ہیں خدا تیرے شہر میں
-----
وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں 
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے
-----
یہ کون چپکے چپکے اٹھا اور چل دیا
خاطر یہ کس نے لوٹ لیں محفل کی دھڑکنیں
-----
عمارت جسم کی مسمار ہوتی جا رہی ہر نفس لیکن 
دلِ ویراں کو زعمِ رفعتِ تعمیر تھا کل شب جہاں میں تھا
-----
ظلمت مغرب کو خاطر کوئی یہ پیغام دے
ہم بھی اب ابھریں گے مشرق سے اجالوں کی طرح
-----
ایک ہم ہیں کہ تصور کی طرح ساتھ رہے 
ایک تو ہے کہ جو خلوت میں بھی تنہا نہ ہوا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...