لاہور (وقائع نگار خصوصی+ ریڈیو نیوز) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس ثاقب نثار اور مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن نے ڈرون حملوں کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ فوج یا حکومت کو کسی ملک کیخلاف اعلان جنگ کا حکم نہیں دے سکتے۔ خارجہ پالیسی کا تعین یا کسی ملک کیخلاف اعلان جنگ کرنا عدالتوں کا کام نہیں‘ یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے‘ عدالتیں حکومتی امور میں مداخلت نہیں کر سکتیں‘ حملے روکنے کی ٹیکنالوجی کا فیصلہ پارلیمنٹ کا کام ہے‘ دعا کریں ملک میں جمہوریت چلتی رہے‘ فوج امن کیلئے لڑ رہی ہے اسکی وجہ سے متاثرین سوات گھروں کو جا رہے ہیں۔ بھارت سے روز فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس فائرنگ کے نتیجے میں اگر کسی دن کچھ زیادہ نقصان ہو جائے تو کیا عدالت بھارت کے خلاف اعلان جنگ کر دے گی۔ یہ عدالتوں کا کام نہیں‘ پالیسی فیصلے پارلیمنٹ اور حکومت کرتی ہے۔ عدالت پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی اور عدالتوں کو پارلیمنٹ اور حکومت کے معاملات میں نہ گھیسٹا جائے۔ مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے قرار دیا کہ یہ دیکھنا حکومت کا کام ہے کہ اس کے پاس دفاع کیلئے کیا وسائل ہیں‘ کیا پاکستان کے پاس ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں؟ وکلا محاذ کیطرف سے درخواست گزار ایڈووکیٹ باسط نے استدعا کی کہ عدالت عالیہ امریکہ کو دشمن ملک قرار دے اور پاکستان میں امریکہ کی جائیداد ضبط کرلی جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ہر بات امریکہ سے شروع کرکے امریکہ پر ہی کیوں ختم کی جاتی ہے۔ ہر بات پر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ نے کرایا ہے ہمارا اپنا بھی کوئی تشخص ہے۔
ہائیکورٹ
ہائیکورٹ